بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر دَین پر زمانہ گزر گیا ہو تو کیا موجودہ حساب وقیمت سے اس کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے؟


سوال

 ایک اسکول ماسٹر بارہ سال پہلے دوران سروس انتقال کرگئے تو حکومت پاکستان نے اس کے ورثاء کو دس لاکھ روپے دیے، اس کے بڑے بھائی نے اس ساری رقم کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے لیے خرچ کیا اور باقی ورثاء کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا، آج اس میت کے ورثاء اپنا حق مانگتے ہیں ،تو کیا ان ورثاء کو موجودہ حساب سے رقم دی جائے گی یا صرف دس لاکھ روپے ان میں تقسیم کیے جائیں گے؟کیونکہ اس دس لاکھ روپوں سے تو تقریباً موجودہ وقت میں پچاس لاکھ بنتے ہیں۔

تنقیح:

سوال کے متعلق وضاحت مطلوب ہے:

1۔حکومت نے دس لاکھ روپے کس کے نام جاری کیے؟تمام ورثاء کے نام یا کچھ کے نام؟

2۔ مذکورہ شخص کے ورثاء کون کون ہیں؟بیٹے،بیٹیاں کتنی ہیں؟کیا بیوہ بھی زندہ ہے؟

3۔مذکورہ شخص نے جو رقم استعمال کی تو کیا وہ تمام ورثاء کی اجازت سے استعمال کی تھی؟

جوابِ تنقیح:

حکومتِ پاکستان نے رقم تمام ورثاء کے نام جاری کی تھی،میت کی زوجہ اور ماں دونوں زندہ ہیں اب بھی اور میت کے چار بیٹے ہیں اور چھ بیٹیاں ہیں ،مرحوم کے بڑے بھائی نے رقم کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے لیے خرچ کیا اور کسی سے اجازت نہیں لی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں حکومتِ پاکستان نے مذکورہ شخص کے ورثاء کے نام جو دس لاکھ روپےجاری کیے  تھے وہ بطورِ عطیہ تھے، لہذا وہ دس لاکھ تمام ورثاء یعنی ماں ، بیوہ ،چار بیٹے اور چھ بیٹیوں میں برابر تقسیم ہوں گے، نیز  اگرسائل کا بیان واقعۃً درست ہو اور مذکورہ شخص کے بڑے بھائی نے اس رقم کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے لیے خرچ کرلیے اور باقی ورثاء کو کچھ بھی نہیں دیا ،نیز ان کی طرف سے اجازت بھی نہ تھی ، تو شرعاً مذکورہ شخص کے بڑے بھائی پرلازم ہے کہ وہ مرحوم کے  ورثاء کو اپنے اپنے حصے ادا کرے، اگر ادا نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہوگا، ورثاء کے درمیان موجودہ حساب کے اعتبار سے رقم تقسیم نہیں کی جائے گی ، بلکہ دس لاکھ روپے ہی تقسیم کیے جائیں گے،نیز بہتر ہو گا کہ حکومت سے رابطہ کر کے صحیح صورت پر عمل کریں، تا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو ۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين".

(مشكاة المصابيح، باب الغصب والعاریة،ج:1،ص:254،ط: قدیمی)

درر الحكام شرح مجلة الاحكام میں ہے:

"المسألة الرابعة عشرة - يبرأ المدين من الدين بتسع صور:

(أولا) بأداء الدين للدائن أو بأدائه لورثته بعد وفاته، وهذا يكون بأداء مثل المال المقرض أو ببيع المدين أو بإيجاره للدائن مالا مقابل دينه. إيضاح بدل المثل: إذا أدى مثل المقروض يكون قد أدى الدين ولا يلتفت للرخص والغلاء حتى أنه لو استقرض الدراهم المكسورة مغشوشة على أن يؤديها دراهم صحيحة يبطل هذا الشرط (رد المحتار) .مثلا: لو استقرض أحد خمسين دينارا عثمانيا بينما كان الدينار الواحد رائجا بمائة وثمانية قروش ثم نزل سعر الدينار إلى مائة قرش أو صعد إلى مائة وعشرين قرشا فيكون المستقرض مجبورا على أداء الخمسين الدينار المذكورة."

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الشركة، مطلب في قبول قوله دفعت المال بعد موت الشريك أو الموكل،ج:4،ص:320،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں