بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تنہائی کے گناہوں سے کیسے بچا جائے


سوال

میں اللہ کی تو فیق اور کرم سے فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ تہجد کا بھی اہتمام کرتا ہو ں، کثرت سے درود پاک کا ذکر کرتا ہوں، اس کےعلاوہ حسبِ تو فیق بھر پو ر صدقات بھی دیتا رہتا ہوں، ذکر اذکار ، نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ، چھپ کر عبادتیں کرنا و غیرہ، اللہ کے کرم سے سب کرتا ہوں، مگر جب بھی تنہائی میں ہو تا ہو ں تو حرام کام کا مرتکب ہو جا تا ہو ں، جب میں یہ کام کر لیتا ہو ں تو مجھے اندر سے آواز آتی ہے کہ اللہ کی نا فرمانی کر کے اب کس منہ سے دعا مانگو گے، اللہ سے حیا نہ کی اور اب اُسی کے سامنے جھک رہے ہو، الغرض مختلف قسم کے خیالات دل میں آتے ہیں، مجھے میری تمام عبادات بے معنی لگنے لگتی ہیں، بعض اوقات تو نمازوں کی تو فیق بھی چھن جاتی ہے، براہِ کرم میری راہ نمائی فرمائیں اور بتائیں کہ تنہائی کے گناہ سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

جواب

واضح رہے کہ گناہ اللہ رب العزت کی نافرمانی کو کہتے ہیں، اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی ہر انسان کے ہرعمل سے واقف ہیں اور ہر وقت اپنے تمام بندوں کے افعال کو دیکھتے ہیں، انسان جب تنہائی میں گناہ کرتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے  کوئی دیکھنے والا نہیں ہے، اسے یہ احساس نہیں رہتا کہ اللہ تعالی مجھے اس حالت میں بھی دیکھ رہے ہیں، لہذا گناہ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اپنے دل میں یہ احساس پیدا کرے کہ اللہ تعالی مجھے ہر وقت دیکھ رہے ہیں، خواہ میں لوگوں کے سامنے ہوں یا لوگوں سے پوشیدہ ہوں، میں کسی حال میں بھی اللہ تعالی سے مخفی نہیں ہوسکتا، اور یہ احساس پیدا کرے کہ میں نے اپنے پروردگار کے سامنے پیش ہونا ہے اور مجھے اپنے تمام اعمال کا حساب دینا ہے، اس خیال کو بار بار دہراتا رہے تاکہ دل میں اچھی طرح راسخ ہوکر گناہوں سے بچنے کا ذریعہ بن جائے، خوفِ خدا ہی وہ چیز ہے جو انسان کو تنہائی میں گناہ سے بچاسکتی ہے، اس لیے تنہائی میں گناہوں سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دل میں اللہ تعالی کا خوف پیدا کیا جائے۔اس کے علاوہ گناہ میں مبتلا ہونے کے جو ظاہری اسباب ہیں، ان کو اپنے سے دور رکھیں، اگر موبائل یا برے انسان کی صحبت یا غلط مناظر گناہ کی طرف ابھارتے ہوں، تو  ان سے دوری اختیار کریں، کسی بزرگ کی صحبت میں بیٹھیں۔

اور اگر سائل سے پھر بھی گناہ ہوجاتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کی رحمت تو بہت وسیع ہے، لہٰذا سائل کو چاہیے کہ گناہ ہوجانے کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنے گناہ کی توبہ کرے، سائل کے لیے مایوس ہو کر نمازیں چھوڑنا درست نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

" قُلْ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسْرَفُوا۟ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَةِ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ." (سورة الزمر: 53)

ترجمہ: ’’آپ کہہ  دیجیے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں، تم خدا تعالیٰ کی رحمت سے نا امید مت ہو۔ بالیقین اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ واقعی وہ بڑا بخشنے والا بڑی رحمت کرنے والا ہے۔‘‘ (بیان القرآن)

مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیت سے متعلق معارف القرآن میں لکھتے ہیں:

’’مرنے سے پہلے پہلے ہر بڑے سے پڑے گناہ یہاں تک کہ کفر و شرک سے بھی جو توبہ کرلے قبول ہوجاتی ہے، اور سچی توبہ سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اس لیے کسی کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ آیت گناہ گاروں کے لیے قرآن کی سب آیتوں سے زیادہ امید افزا ہے۔‘‘

(معارف القران، ج: ۷، ص: ۵۶۹، ط: مکتبہ معارف القرآن کراچی)

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

’’گناہ چھوڑنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ  جب کبھی گناہ کا صدور ہوجائے تو اس کے بعد فوراً دو رکعت نماز پڑھ کر توبہ کرلی جائے، اگر دوبارہ گناہ ہوجائے تو دوبارہ دو رکعت پڑھ کر توبہ کی جائے، اس عمل کو تسلسل کے ساتھ کیا جائے، چند ہی دنوں میں نفس گناہ سے باز آجائے گا، کیوں کہ نماز نفس پر بھاری ہے، نفس پر یہ بوجھ ڈالنے سے نفس کی اصلاح ہوجائے گی۔‘‘

(ماخوذ از خطباتِ حکیم الامت، ج: 28، ص: 260، ط: ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ)

جس آدمی کے لیے گناہوں کا ترک کرنا بہت مشکل ہوچکا ہو تو اسے چاہیے کہ کسی مستند صاحبِ نسبت  اللہ والے سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کرے، ان کی صحبت میں وقت گزارے، خط و کتابت اور فون کے ذریعہ ان کو اپنے احوال سے مطلع کرتا رہے اور جو کچھ وہ کرنے کا کہیں، اس کو پابندی سے کرتا رہے، تو اس سے  انسان کے  لیے گناہوں کا چھوڑنا آسان ہوجاتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظاتِ حکیم الامت، ج: 1، ص: 57، ط: ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ)

نیز الگ کمرے میں ہو تو دروازہ اندر سے بند نہ کرے، بلکہ قدرے کھلا رہے تاکہ تنہائی کے احساس سے گناہ کی جرأت نہ ہو۔

معارف القرآن میں ہے:

’’ولمن خاف مقام ربه:مقامِ رب سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک قیامت کے روز حق تعالی کے سامنے حساب کے لیے پیشی ہے، اور اس سے خوف کے معنی یہ ہیں کہ جلوت و خلوت میں اور ظاہر و باطن کے تمام احوال میں اس کو یہ مراقبہ دائمی رہتا ہو کہ مجھے ایک روز حق تعالی کے سامنے پیش ہونا اور اعمال کا حسساب دینا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کو ایسا مراقبہ ہمیشہ رہتا ہو وہ گناہ کے پاس نہیں جائے گا۔

اور قرطبی وغیرہ بعض حضرات مفسرین نے مقامِ رب کی یہ تفسیر بھی کی ہے کہ اللہ تعالی ہمارے ہر قول و فعل اور خفیہ و علانیہ عمل پر نگران اور قائم ہے، ہماری ہر حرکت اس کے سامنے ہے، حاصل اس کا بھی وہی ہوگا کہ حق تعالی کا یہ مراقبہ اس کو گناہوں سے بچادے گا۔‘‘

(ج: 8، ص: 261، ط: مکتبہ معارف القرآن کراچی)

تفسير ابنِ كثير ميں هے:

"روي عنه أنه قال: إن من خاف مقام ربه لم يزن ولم يسرق."

(الرحمٰن، ج: 7، ص: 502، ط: دار طیبة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144407102306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں