بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تنہائی میں گناہوں سے بچنے کا طریقہ


سوال

تنہائی میں گناہوں سے دور رہنے کا کوئی طریقہ بتائیں۔

جواب

واضح رہے کہ گناہ اللہ رب العزت کی نافرمانی کو کہتے ہیں، اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی ہر انسان کے ہرعمل سے واقف ہیں اور ہر وقت اپنے تمام بندوں کے افعال کو دیکھتے ہیں، انسان جب تنہائی میں گناہ کرتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے  کوئی دیکھنے والا نہیں ہے، اسے یہ احساس نہیں رہتا کہ اللہ تعالی مجھے اس حالت میں بھی دیکھ رہے ہیں، لہذا گناہ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اپنے دل میں یہ احساس پیدا کرے کہ اللہ تعالی مجھے ہر وقت دیکھ رہے ہیں، خواہ میں لوگوں کے سامنے ہوں یا لوگوں سے پوشیدہ ہوں، میں کسی حال میں بھی اللہ تعالی سے مخفی نہیں ہوسکتا، اور یہ احساس پیدا کرے کہ میں نے اپنے پروردگار کے سامنے پیش ہونا ہے اور مجھے اپنے تمام اعمال کا حساب دینا ہے، اس خیال کو بار بار دہراتا رہے تاکہ دل میں اچھی طرح راسخ ہوکر گناہوں سے بچنے کا ذریعہ بن جائے۔

خوفِ خدا ہی وہ چیز ہے جو انسان کو تنہائی میں گناہ سے بچاسکتی ہے، حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ (جوکہ صحابی رسول ﷺ ہیں) سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: جس دل میں خدا کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف ہوگا، ناممکن ہے کہ اس سے زنا ہو یا وہ چوری کرے۔

اس لیے تنہائی میں گناہوں سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دل میں اللہ تعالی کا خوف پیدا کیا جائے۔

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ گناہ چھوڑنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ  جب کبھی گناہ کا صدور ہوجائے تو اس کے بعد فوراً دو رکعت نماز پڑھ کر توبہ کرلی جائے، اگر دوبارہ گناہ ہوجائے تو دوبارہ دو رکعت پڑھ کر توبہ کی جائے، اس عمل کو تسلسل کے ساتھ کیا جائے، چند ہی دنوں میں نفس گناہ سے باز آجائے گا، کیوں کہ نماز نفس پر بھاری ہے، نفس پر یہ بوجھ ڈالنے سے نفس کی اصلاح ہوجائے گی۔

(ماخوذ از خطباتِ حکیم الامت، ج: 28، ص: 260، ط: ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ)

جس آدمی کے لیے گناہوں کا ترک کرنا بہت مشکل ہوچکا ہو تو اسے چاہیے کہ کسی مستند صاحبِ نسبت  اللہ والے سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کرے، ان کی صحبت میں وقت گزارے، خط و کتابت اور فون کے ذریعہ ان کو اپنے احوال سے مطلع کرتا رہے اور جو کچھ وہ کرنے کا کہیں، اس کو پابندی سے کرتا رہے، تو اس سے  انسان کے  لیے گناہوں کا چھوڑنا آسان ہوجاتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظاتِ حکیم الامت، ج: 1، ص: 57، ط: ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ)

نیز الگ کمرے میں ہو تو دوازہ اندر سے بند نہ کرے، بلکہ قدرے کھلا رہے تاکہ تنہائی کے احساس سے گناہ کی جرأت نہ ہو۔

معارف القرآن میں ہے:

" ولمن خاف مقام ربه:مقامِ رب سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک قیامت کے روز حق تعالی کے سامنے حساب کے لیے پیشی ہے، اور اس سے خوف کے معنی یہ ہیں کہ جلوت و خلوت میں اور ظاہر و باطن کے تمام احوال میں اس کو یہ مراقبہ دائمی رہتا ہو کہ مجھے ایک روز حق تعالی کے سامنے پیش ہونا اور اعمال کا حسساب دینا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کو ایسا مراقبہ ہمیشہ رہتا ہو وہ گناہ کے پاس نہیں جائے گا۔"

اور قرطبی وغیرہ بعض حضرات مفسرین نے مقامِ رب کی یہ تفسیر بھی کی ہے کہ اللہ تعالی ہمارے ہر قول و فعل اور خفیہ و علانیہ عمل پر نگران اور قائم ہے، ہماری ہر حرکت اس کے سامنے ہے، حاصل اس کا بھی وہی ہوگا کہ حق تعالی کا یہ مراقبہ اس کو گناہوں سے بچادے گا۔

(معارف القرآن للشفیعؒ،8، ص: 261، ط: مکتبہ معارف القرآن، کراچی)

تفسير ابنِ كثير ميں هے:

"روي عنه أنه قال: إن من خاف مقام ربه لم يزن ولم يسرق۔"

(تفسیر ابنِ کثیر، ج: 7، ص: 502، ط: دار طیبہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں