ہمارے گاؤں میں بعض غیر مقلدین عورتوں کی جماعت کراتے ہیں یعنی ایک عورت جو ،کچھ علم والی ہو، امام بنتی ہے اور باقی عورتیں اس کے پیچھے اقتداء کرتی ہیں، لیکن یہ عمل مسجد میں نہیں بلکہ گھر میں کیا جاتا ہے، اور دلیل میں کچھ احادیث ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں، اسی طرح کی کچھ روایات سے استدلال کرتے ہیں، اور یہ عمل خاص کر تراویح میں کیا جاتا ہے، آپ حضرات ان کے اس عمل کی شرعی حیثیت بیان فرمائیں اور ہمارا مذہب احادیث کی روشنی میں واضح فرمائیں۔
تنہا عورتوں کی جماعت کہ عورت ہی امام ہو،مکروہِ تحریمی ہے خواہ جماعت تراویح کی ہو یا فرض نماز کی ،لہٰذا آپ کے گاؤں میں بعض حضرات کا یہ عمل درست نہیں ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعورتوں کی جماعت میں کچھ خیر نہیں، اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورت امام نہ بنے،نیز اس کے علاوہ کراہت کی ایک وجہ امام کا پہلی صف کے درمیان میں کھڑا ہونا ہے، جب کہ آگے بڑھنے میں اس سے بھی زیادہ کراہت ہے۔جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عہنا کی امامت کرانے کا مسئلہ ہے تو وہ خواتین کی تعلیم کے لیے تھا۔ (مستقل امامت كرانے كا ثبوت نہیں ہے) نيز جن روایات میں عورتوں کی امامت کا ذکر ہے وہ امام کاسانی اور صاحب بحر رحمہما اللہ تعالیٰ کی تصریح کے مطابق ابتداء میں تعلیم کے لیے تھا بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا ۔
اعلاء السنن میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: لا خير في جماعة النساء إلا في مسجد أو في جنازة قتيل. رواه احمد والطبراني في الاوسط إلا أنه قال:لا خير في جماعة النساء إلا في مسجد جماعة.وفيه ابن لهيعة، وفيه كلام (مجمع الزوائد155:1) قلت: قد حسن له الترمذي، و احتج به غير واحد كما في مجمع الزوائد (ص:126 و ص:5) ايضا."
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کی جماعت میں کچھ خیر نہیں مگر (جو جماعت) مسجد میں (ہو) یا شہید کی جنازہ میں، اس کو احمد نے اور طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے، اور طبرانی کے الفاظ یہ ہے کہ عورتوں کی جماعت میں کچھ خیر نہیں مگر(یہ کہ ) مسجد جماعت میں (ہو) اور اس کی سند میں ابن لہیعہ راوی ہیں اور ان میں کلام ہے(مجمع الزوائد) میں کہتا ہوں کہ ترمذی نے ان کی حدیث کی تحسین کی ہے اور بہت سے لوگوں نے ان سے احتجاج کیا ہے جیسا کہ مجمع الزوائد میں دوسرے مقام پر بیان کیا ہے، پس حدیث حسن ہے۔"
2-"قال ابن وهب: عن ابن أبي ذئب عن مولى لبني هاشم أخبره عن على ابن طالب رضي الله عنه أنه قال: لا تؤم المرأة (المدونة لمالك86:1) قلت: رجاله كلهم ثقات."
"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ عورت امام نہ بنے،(مدونہ امام مالک) اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔"
(کتاب الصلوۃ، باب کراھۃ جماعہ النساء،242/4،ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) يكره تحريما (جماعة النساء) ولو التراويح في غير صلاة جنازة.
(قوله ويكره تحريما) صرح به في الفتح والبحر (قوله ولو في التراويح) أفاد أن الكراهة في كل ما تشرع فيه جماعة الرجال فرضا أو نفلا."
(کتاب الصلوۃ،باب الإمامة،565/1،سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"إلا ان جماعتھن مکروہة عندنا وعند الشافعی مستحبة کجماعة الرجال ویروی فی ذلک أحادیث لکن تلک کانت فی ابتداء الإسلام ثم نسخت بعد ذلک."
(کتاب الصلوۃ،فصل بیان من ھو أحق بالإمامة وأولى بها،157/1،دار الكتب العلمية)
البحر الرائق ميں ہے:
"(قوله وجماعة النساء) أي وكره جماعة النساء؛ لأنها لا تخلو عن ارتكاب محرم وهو قيام الإمام وسط الصف فيكره كالعراة كذا في الهداية وهو يدل على أنها كراهة تحريم؛ لأن التقدم واجب على الإمام للمواظبة من النبي صلى الله عليه وسلم عليه وترك الواجب موجب لكراهة التحريم المقتضية للإثم ويدل على كراهة التحريم في جماعة العراة بالأولى ... قوله: (فان فعلن تقف الإمام وسطھن کالعراة) لأن عائشة رضی اللہ تعالی عنھا فعلت کذلک وحمل فعلھا الجماعة علی ابتداء الإسلام ولان فی التقدم زیادة الکشف."
(کتاب الصلوۃ،جماعة النساء في الصلوة،372/1،دار الكتاب الإسلامى)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603101973
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن