بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سی پی فنڈ کا حکم


سوال

7 جون 2022 سے سی پی فنڈ کے تحت بھرتی ملازمین سے سی پی فنڈ کی مد میں بیسک پے کے حساب سے 10 فیصد کٹوتی ہوگی اور حکومت اس کے  ساتھ 12 فیصد جمع کرے گی۔  ریٹائرمنٹ کے بعد ٹوٹل رقم کا کچھ محدود حصہ یکمشت ملے گا جب کہ باقی پینشن کی طرح ماہانہ قسطوں میں۔

سمجھنے کے لیے نیچے چارٹ ملاحظہ  کیجیے:

مثلاً ایک ملازم سے ماہانہ کٹوتی 2500 کٹوتی ہوتی ہے اور حکومت 3000 جمع کرتی ہے تو ملازم کے سی پی فنڈ اکاؤنٹ میں ٹوٹل 5500 ماہانہ جمع ہونگے۔ ہر سال مہنگائی کی 9 فیصد شرح نمو اور دیگر سالانہ انٹرسٹ کے اضافہ لگاتے ہوئے 25 سال سروس کے بعد ملازم ریٹائرمنٹ لیتا ہے تو اس کے اکاؤنٹ میں ٹوٹل رقم تقریبا 1 کروڑ 96 لاکھ 53 ہزار بنتی ہے۔ اب ریٹائرمنٹ پر ملازم اس رقم کا 20 فیصد رقم یکمشت نکال سکتا ہے یعنی تقریباً 39 لاکھ 30 ہزار باقی کی رقم آپ کو ماہانہ قسطوں میں ملے گی۔ ماہانہ قسط کتنی ہوگی  یہ سی پی فنڈ اکاؤنٹ میں بقایا جو 80 فیصد رقم بچی ہے، اس کے حساب سے ملے گی۔ نیچے مثال میں ماہانہ 1 لاکھ 66 ہزار کا حساب لگایا گیا ہے اس حساب سے اگر رقم وصول کرو تو یہ رقم تقریباً 94 ماہ تک آپ لے سکتے ہیں۔ مگر واضح رہے کہ اس میں 15 سے 16 فیصد انٹرسٹ کی صورت میں اضافہ ہوتا جائے گا جب تک رقم اکاؤنٹ میں ہوگی تو اس بناء پر ملازم 94 کے بجائے کئی ماہ تک وصول کرسکیں گے جب تک اکاؤنٹ میں رقم ختم نہ ہو اور انٹرسٹ ریٹ بھی بڑھتا رہے تب۔ یہاں واضح رہے کہ اس سی پی فنڈ سسٹم میں پرانے پینشن کی طرح فیملی پینشن کا کوئی تصور نہیں، بس یہ آپ کے اکاؤنٹ میں موجود رقم پر ڈیپنڈ کرتا ہے آپ اگر اپنی زندگی میں ساری رقم نکال دے تو فیملی کو نہیں ملے گا، اگر فنڈ کی رقم کے خاتمے سے قبل ملازم فوت ہوتا ہے تو فیملی کو فنڈ کی رقم ماہانہ ملتی رہے گی یا اگر فیملی چاہے تو یکمشت بھی باقی رقم نکال سکتی ہے، مزید برآں سی پی فنڈ رولز کےمطابق فرض کریں ملازم 60 سال پر ریٹائرمنٹ لے لیں تو وہ باقی 20 سال یعنی 80 سالہ عمر تک بقایا 80 فیصد رقم سے ماہانہ پینشن وصول کرے گا۔ 80 سال عمر ہوجائے تو باقی رقم یکمشت نکالنے کا حق حاصل ہوگا اگر فرض کریں ملازم کی ریٹائرمنٹ کے پانچ سال بعد یعنی 65 سال عمر میں انتقال ہوجائے تب فیملی کو اختیار حاصل ہوگا کہ اکاؤنٹ میں موجود رقم یکمشت وصول کرے یا ماہانہ قسطوں میں حاصل کرے۔ محکمہ خزانہ نے مختلف کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے کہ وہ ملازمین سے کاٹی جانے والی رقم بمع محکمہ خزانہ کے 12 فیصد رقم پر انویسٹمنٹ کریں۔ اور جو اضافی رقم بنتی ہے وہ کمپنیاں ملازمین کے اکاؤنٹس میں جمع کرتے جائیں ریٹائرمنٹ پر مقررہ پلان کے مطابق ملازمین کو کچھ رقم یکمشت اور کچھ ماہانہ بطور پینشن دی جائے  یہ سود تو نہیں ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ سرکاری اداروں کی طرف سے ملازمین کے لیے سی بی فنڈ  بھی جی پی (جنرل  پراویڈنٹ فنڈ) ہی کی طرح کا ایک فنڈ ہے ،اس کے جواز، عدم جواز کی چند صورتیں ہیں  :

1۔ بعض ادارے اپنے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بناتے ہیں اور ملازم کو عدمِ شمولیت کا اختیار نہیں دیتے، ہر ماہ تنخواہ دینے سے پہلے ہی طے شدہ شرح کے مطابق جبری کٹوتی کرلی جاتی ہے اور بقیہ تنخواہ ملازم کو دے دی جاتی ہے۔

2۔ بعض اداروں کی طرف سے ہر ملازم کے لیے اس فنڈ کا حصہ بننا لازمی نہیں ہوتا ، بلکہ ملازم کو اختیار ہوتاہے کہ اپنی مرضی سے جو ملازم اس فنڈ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اس فنڈ کا حصہ بن سکتا ہے اور ملازمین کی اجازت سے ہر ماہ طے شدہ شرح کے مطابق ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کرکے مذکورہ فنڈ میں جمع کی جاتی رہتی ہے۔

3۔ بعض ادارے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ ملازم کو اختیار دیتے ہیں کہ اگر کوئی ملازم اس فنڈ میں مقررہ شرح سے زیادہ رقم جمع کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے؛ اس قسم کی کٹوتی کو جبری و اختیاری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔

مذکورہ صورتوں میں ملنے والے اضافے کا حکم:

1۔ پہلی صورت( جبری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ یہ فنڈ کمپنی کی طرف سے ملازمین کے لیے تبرع و انعام ہوتا ہے اور ملازمین کے لیے یہ لینا شرعاً جائز ہوتا ہے ، اس لیے ملازم نے اپنی رضامندی سے رقم جمع نہیں کروائی، ادارہ اس سے جس طرح بھی نفع کمائے ملازم اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اور قانوناً وشرعاً ابھی تک مذکورہ رقم اس کی ملکیت میں بھی نہیں ہوتی ؛ لہٰذا اس کے لیے اضافی رقم لینا جائز ہوگا، البتہ اگر کوئی احتیاطاً یہ رقم استعمال نہ کرے تو یہ تقوے کی بات ہے۔

2۔ دوسری  قسم (اختیاری کٹوتی)  کا حکم یہ ہے کہ ملازمین نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے، اور ادارے نے اس کے ساتھ جتنی رقم اپنی طرف سے ملائی ہے یہ دونوں رقوم  وہ لے  سکتے ہیں، البتہ سود  کے نام سے  جو زائد رقم  ہے، اسے لینا شرعاًجائز نہیں ہوتا ؛ کیوں کہ اس صورت میں ملازم اپنے اختیار سے کٹوتی کرواتاہے، گویا وہ اپنی جمع شدہ رقم کو سودی انویسٹمنٹ میں صرف کرنے پر راضی ہوتاہے، لہٰذا یہ اضافہ لینا جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ سودی معاملے پر رضامندی بھی ناجائز ہے۔

3۔ تیسری صورت( جبری واختیاری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ جتنی کٹوتی جبراً ہوئی ہے اس پر ملنے والی زائد رقم ملازم کے لیے لینا شرعاً جائز ہوتا ہے اور جتنی رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے  اس پر ملنے والی زائد رقم لینا جائز نہیں ہوتا ۔

البحر الرائق میں  ہے :

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(كتاب الإجارة ،ج:7،ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

جواہر الفقہ میں ہے:

"جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے  ،وہ شرعا سود نہیں  بلکہ اجرت(تنخواہ)ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے  ، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ  سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے ، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے."

(پراویڈنٹ فنڈپر زکوٰۃ اور سود کا مسئلہ ،ج:3،ص:258،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں