بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹنگ ٹکور والی نظمیں سننے کا حکم / اللہ اللہ کے کورس والی نظمیں سننے کا حکم


سوال

ٹنگ ٹکور والے نظمیں سننا: یہ جو آج کل نظمیں سننے میں آرہی ہیں جن میں اللہ تعالی کے باعظمت نام کو یہ لوگ ساز کے طور پر پیش کرتے ہیں جیسے اللہ ھو ،اور اس کو یہ لوگ ساز کے طور پر پیش کرکے نظم کو خوبصورت بناتے ہیں ،تو اس کا سننا  کیا جائز  ہے؟

جواب

واضح رہے کہ "ٹنگ ٹکور" موجودہ دور کے گٹار کی ایک قدیم صورت ہے، جس میں لگے تاروں کو حرکت دینے سے ساز کی آواز پیدا ہوتی ہے، ٹنگ ٹکور آلات موسیقی میں سے ہے، لہذا  صورتِ  مسئولہ میں جس نظم میں مذکورہ آلہ کا استعمال ہو، اسے سننا حرام ہوگا۔

اسی طرح سے ایسی نعتیں اور نظمیں سننا سنانا  بھی جائز نہیں جن میں باری تعالی کے نام نامی کو نعت و نظم  کے پس منظر میں  ایک مخصوص انداز میں دہرایا جاتا ہے،  جس سے  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا باجے کے متبادل کے طور پر  اللہ رب العزت کے بابرکت نام کو استعمال کیا جا رہا ہے، اس طرح اللہ کے مقدس نام کے ذریعہ میوزک کا لطف لے کر شیطانی خواہشات کی تسکین کی جاتی ہے جو کہ تلبیس کی ایک صورت ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

" صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله عليه الصلاة والسلام: «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه»

وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره اهـ أو لتغليظ الذنب كما في الاختيار أو للاستحلال كما في النهاية.

(قوله ينبت النفاق) أي العملي (قوله كضرب قصب) الذي رأيته في البزازية قضيب بالضاد المعجمة والمثناة بعدها (قوله فسق) أي خروج عن الطاعة ولا يخفى أن في الجلوس عليها استماعا لها والاستماع معصية فهما معصيتان."

( كتاب الحظر و الاباحة، ٦ / ٣٤٩، ط: دار الفكر)

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:

"وقال قاضي خان: الفقاعي إذا قال عند فتح الفقاع للمشتري: صل على محمد: قالوا يكون آثما، وكذا الحارس إذا قال في الحراسة: لا إله إلا الله يعني لأجل الإعلام، بأنه مستيقظ

قوله: لأن الحارس والفقاعي يأخذان بذلك أجرا.

أقول هذا التعليل عليل أما بالنسبة إلى الفقاعي فلأن علة الإثم فيه ليست أخذ الأجر، بل إعلامه جودة الفقاع بالصلاة وأما بالنسبة إلى الحارس فلأن علة الإثم فيه ليست أخذ الأجر بل إعلامه بالذكر أنه مستيقظ كما اعترف هو به." 

( الفن الأول قول في القواعد الكلية، القاعدة الثانية الأمور بمقاصدها، ١ / ٩٨، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں