بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تنگ مسجد کے لیے مالک سے جبرًا زمین خرید لینا


سوال

جومسجد تنگ ہواوراس كے قريب كسی كا گھریادکان ہوتوکیا اس کو مسجد کے لیے مالک  سےزبردستی خرید ناجائزہے؟ایک مفتی صاحب کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں زمین زبردستی لینا جائز ہے ،اوردلیل میں فقہ حنفی کی مشہورکتاب درمختارکادرج ذیل حوالہ دیتے ہیں:

"(تؤخذ أرض) ودار وحانوت (بجنب مسجد ضاق على الناس بالقيمة كرها"

اسی طرح قاضی خان  کا یہ حوالہ بھی دیتاہے:

"لدی الحاجة یؤخذ ملك کائن من كان بالقیمة بأمر السلطان ویلحق بالطریق لکن لایؤخذ من یدہ مالم یؤد الثمن"

کیا فقہ حنفی میں اس طرح کی عبارات ملتی ہیں؟

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں  جس علاقےمیں صرف ایک جامع مسجد ہو اوروہ وہاں کے مسلمانوں کے لیے کافی   نہ ہواور قریب میں کوئی دوسری مسجدبھی نہ ہواورمسجدکےقریب کسی کی مملوکہ زمین ہو،جسےخریدکرمسجدمیں توسیع ممکن ہوتواس زمین کےمالک کوراضی کرکےوہ زمین خریدکرمسجدمیں کلائی جائے،لیکن اگروہ راضی نہ ہواوراس سلسلےمیں مسلمانوں کی بنیادی ضرورت کا احساس دلانے کےباوجود بےحس بنا رہے اور  سختی دکھائےتوایسی تنگی اورضرورتِ شدیدہ کی حالت میں حاکمِ وقت کےتعاون سےمالک ِمکان سے  زمین لے کرمسجدکےساتھ ملائی جاسکتی ہے۔

2:فقہ حنفی میں ذکر کردہ عبارات کی طرح عبارات ملتی ہیں ،جیساکہ سوال میں پہلی عبارت درمختارکی ہے،تاہم دوسری عبارت ان الفاظ کے ساتھ فتاوی قاضی خان میں نہیں ملی،تقریباًاسی طرح کی عبارت شرح المجلہ میں ہے:

"يؤخذ لدى الحاجة ملك أي أحد بقيمته بأمر السلطان و يلحق بالطريق و لكن لايؤخذ ملكه من يده مالم يؤد له الثمن."

(شرح المجلہ لسلیم رستم باز،فصل فی الطریق،ج:1،ص:527،ط:مکتبہ رشیدیہ )

جب کہ فتاوی قاضی خان میں یہ عبارت میں موجودہے:

"و لوضاق المسجد على الناس و بجنبه أرض لرجل يؤخذأرضه بالقيمة كرهًا."

(كتاب الوقف ،ج:3،ص:168،ط:مكتبه رشيديه)

دررالحكام شرح مجلة الأحكام ميں هے:

" ‌(المادة 1216) يؤخذ لدى الحاجة ملك أي أحد بقيمته بأمر السلطان و يلحق بالطريق ... فلذلك لو كان مسجد ضيق و غير كاف لاستيعاب المصلين و كان لأحد ملك متصل بذلك المسجد و وجدت حاجة لإلحاق قسم من تلك الدار للجامع و تعنت صاحب الدار عن بيع ذلك المقدار من ملكه فلاينظر لرضائه و يؤخذ المقدار اللازم للجامع و حريم الجامع بقيمته جبرًا و كرهًا و يوسع الجامع و قد وسع الإمام عمر و الصحابة - رضوان الله عليهم - المسجد النبوي على هذا الوجه."

(الكتاب العاشر، الباب الثالث، الفصل الثالث فی الطرق ،ج،3، ص،233،ط:دارالجيل)

فتاوی شامي ميں هے:

"(تؤخذ أرض) ودار وحانوت (بجنب مسجد ضاق على الناس بالقيمة كرها) درر وعمادية ... قوله: وتؤخذ أرض) في الفتح: ولو ضاق المسجد وبجنبه أرض وقف عليه أو حانوت جاز أن يؤخذ ويدخل فيه اهـ زاد في البحر عن الخانية بأمر القاضي وتقييده بقوله: وقف عليه أي على المسجد يفيد أنها لو كانت وقفا على غيره لم يجز لكن جواز أخذ المملوكة كرها يفيد الجواز الأولى؛ لأن المسجد لله تعالى، والوقف كذلك ولذا ترك المصنف في شرحه هذا القيد وكذا في جامع الفصولين تأمل (قوله: بالقيمة كرها) لما روي عن الصحابة - رضي الله عنهم - لما ضاق المسجد الحرام أخذوا أرضين بكره من أصحابها بالقيمة وزادوا في المسجد الحرام بحر عن الزيلعي قال في نور العين: ولعل الأخذ كرها ليس في كل مسجد ضاق، بل الظاهر أن يختص بما لم يكن في البلد مسجد آخر إذ لو كان فيه مسجد آخر يمكن دفع الضرورة بالذهاب إليه نعم فيه حرج لكن الأخذ كرها أشد حرجا منه ويؤيد ما ذكرنا فعل الصحابة إذ لا مسجد في مكة سوى الحرام."

(كتاب الوقف ،مطلب في الوقف اذاخرب ،ج،4،ص،379،ط:سعيد)

فتح القدير للكمال ابن الهمام ہے:

"ولو ضاق المسجد وبجنبه أرض وقف عليه أو حانوت جاز أن يؤخذ ويدخل فيه. ولو كان ملك رجل أخذ بالقيمة كرها."

 (كتاب الوقف ،فصل اذابني مسجدالم يزل ملكه عنه ،ج:6 ،ص:235، ط:الحلبی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100845

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں