بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

تنگ دستی کے خوف سے نکاح نہ کرنا


سوال

 آج کل جس طرح مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، گھریلو اخراجات پورے کرنا مشکل ہو چکا ہے، ایسے میں والدین شادی کے لیے فورس کرتے ہیں تو ذمہ داریاں پوری نہ کر سکنے کا احساس جاگتا ہے کہ بیوی کے حقوق پورے کرنا مشکل لگنے لگتا ہے، ان حالات میں شرعی کیا حکم ہے اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے عقلی فیصلہ کیا لینا چاہیے۔

جواب

واضح رہے کہ نکاح کو اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے، بلکہ نکاح میں مشغول ہونا رات کو نفل عبادت میں مشغول ہونے سے افضل ہے، نیز نکاح دل اور شرم گاہ کی حفاظت‘ اور ایمان کی تکمیل کا ذریعہ ہے، یہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنت اور صالحین کا شعار ہے۔ جو شخص بیوی کا حق مہر اور بنیادی نان ونفقہ دینے پر قادر ہو اور اسے غلبہ شہوت کی وجہ سے گناہ میں مبتلاء ہونے کا یقین ہو، تو ایسے شخص پر شرعاً نکاح کرنا واجب ہوتا ہے، نیز اگر نکاح سے تنگ دستی کا خدشہ ہو  تو محض اس خدشے کی وجہ سے نکاح کو ترک نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ از روئے قرآن نکاح کرنے والے اگر فقیر ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا، چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"

[النور: ٣٢]

"ترجمہ: تم میں سے جن (مردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔"

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ اگر وہ اتنی مالی استطاعت رکھتا ہے کہ بیوی کا حق مہر اور بنیادی ضروریات کے اخراجات اور رہائش کا بندوبست برداشت ہوسکے، تو اس پرفتن دور میں اُسے سادگی سے نکاح کرلینا چاہیے اور خواہ مخواہ مالی تنگ دستی کے خوف سے نکاح کو مؤخر یا ترک نہیں کرنا چاہیے، ان شاء اللہ مالی حالات کو اللہ تبارک وتعالیٰ اچھا کردیں گے اور تنگ دستی کو دور کردیں گے۔

ہاں البتہ اگر سائل کے پاس اتنی بھی مالی وسعت نہ ہو کہ وہ بیوی کا مہر اور بنیادی نان ونفقہ برداشت کرسکے اور اس کو یقین ہوکہ شادی کرلینے کی صورت میں بیوی کے ساتھ زیادتی ہوجائے گی، تو پھر ایسی صورت میں فی الحال شادی نہ کرے اور حالات اچھے ہونے کا انتظار کرے، ساتھ ہی اللہ پاک سے سچے دل سے دعا بھی مانگتا رہے، نیز اس دوران جب تک شادی نہیں ہوجاتی، اپنی عفت وپاکدامنی کا خیال رکھے، جس کے لیے مستقل روزوں کا اور اچھی صحبت کا اہتمام کرے۔

سننِ ترمذی میں ہے:

"حدثنا سفيان بن وكيع قال: حدثنا حفص بن غياث، عن الحجاج، عن مكحول، عن أبي الشمال، عن أبي أيوب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أربع من سنن المرسلين: ‌الحياء، والتعطر، والسواك، والنكاح ". وفي الباب عن عثمان، وثوبان، وابن مسعود، وعائشة، وعبد الله بن عمرو، وأبي نجيح، وجابر، وعكاف".

(أبواب النكاح، ‌‌باب ما جاء في فضل التزويج، والحث عليه، ٣/ ٣٨٣، الرقم: ١٠٨٠، ط: مصطفى البابي)

"ترجمہ:حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: چار چیزیں انبیاء کرام (علیہم السلام) کی سنت میں سے ہیں:حیاء ،خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح۔"

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن أبي نجيح قال: «قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:  ‌مسكين ‌مسكين ‌مسكين رجل ليس له امرأة - وإن كان كثير المال - مسكينة مسكينة مسكينة امرأة ليس لها زوج - وإن كانت كثيرة المال»".

(كتاب النكاح، باب حث على النكاح، ٤/ ٢٥٢، ط: مكتبة القدسي)

"ترجمہ: ابن ابی نجیح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: مسکین ہے  مسکین ہے  مسکین ہے وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو  اگرچہ وہ بہت مال والا ہو، (پھر فرمایا:) مسکین ہے مسکین ہے  مسکین ہے وہ عورت جس کا خاوند نہ ہو،  اگرچہ بہت مال والی ہو۔"

یعنی نکاح کرنے سے دین اور دنیا کے بہت سے کام درست ہوجاتے ہیں اور مال کا جو مقصود اصلی ہے، یعنی راحت اور بے فکری، وہ اس مرد کو نصیب نہیں ہوتی جس کی بیوی نہ ہو،  اور اسی طرح اس  عورت کو بھی یہ راحت وآرام نصیب نہیں ہوتا   جس کا خاوند نہ ہو۔ اس لیے مال ہونے کے باوجود شادی نہ کرنے والے مرد وعورت کو اس حدیث میں مسکین کہا گیا ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «‌يا ‌معشر ‌الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم، فإنه له وجاء» . متفق عليه."

(كتاب النكاح، الفصل الأول، ٥/ ٢٠٤١، ط: دارالفكر)

"ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے جوانو!تمہیں نکاح کرلیناچاہیے، کیونکہ یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والا اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والا ہے،اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے۔"

سننِ ترمذی میں ہے:

"حدثنا قتيبة قال: حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌ثلاثة ‌حق ‌على ‌الله عونهم: المجاهد في سبيل الله، والمكاتب الذي يريد الأداء، والناكح الذي يريد العفاف ": هذا حديث حسن".

(أبواب فضائل الجهاد، ‌‌باب ما جاء في المجاهد والناكح والمكاتب وعون الله إياهم، ٤/ ١٨٤، الرقم: ١٦٥٥، ط: مصطفى البابي)

"ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں جن کی مدد کرنا اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے: (ایک) اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، اور (دوسرا) وہ مکاتب غلام جو (اپنا بدلِ کتابت) ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، اور (تیسرا) وہ نکاح کرنے والا جو (نکاح کے ذریعہ اپنی) پاک دامنی چاہتا ہو۔"

تفسیر معارف القرآن میں ہے:

"اس پر ائمہ مجتہدین تقریباً سبھی متفق ہیں کہ جس شخص کو نکاح نہ کرنے کی صورت میں غالب گمان یہ ہو کہ وہ حدود شریعت پر قائم نہیں رہ سکے گا گناہ میں مبتلا ہوجائے گا اور نکاح کرنے پر اس کی قدرت بھی ہو کہ اس کے وسائل موجود ہوں تو ایسے شخص پر نکاح کرنا فرض یا واجب ہے جب تک نکاح نہ کرے گا گنہگار رہے گا۔ ہاں اگر نکاح کے وسائل موجود نہیں کہ کوئی مناسب عورت میسر نہیں یا اس کے لئے مہر معجل وغیرہ کی حد تک ضروری خرچ اس کے پاس نہیں تو اس کا حکم اگلی آیت میں یہ آیا ہے کہ اس کو چاہئے کہ وسائل کی فراہمی کی کوشش کرتا رہے اور جب تک وہ میسر نہ ہوں اپنے نفس کو قابو میں رکھنے اور صبر کرنے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ مسلسل روزے رکھے۔ اس سے غلبہ شہوت کو سکون ہوجاتا ہے۔

مسند احمد میں روایت ہے کہ حضرت عکاف سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تمہاری زوجہ ہے انہوں نے عرض کیا نہیں۔ پھر پوچھا کوئی شرعی لونڈی ہے کہا کہ نہیں پھر آپ نے دریافت کیا کہ تم صاحب وسعت ہو یا نہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ صاحب وسعت ہوں۔ مراد یہ تھی کہ کیا تم نکاح کے لئے ضروری نفقات کا انتظام کرسکتے ہو جس کے جواب میں انہوں نے اقرار کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو اور فرمایا کہ ہماری سنت نکاح کرنا ہے۔ تم میں بدترین آدمی وہ ہیں جو بےنکاح ہوں اور تہمارے مردوں میں سب سے رذیل وہ ہیں جو بےنکاح مر گئے۔ (مظہری)
اس روایت کو بھی جمہور فقہاء نے اسی حالت پر محمول فرمایا ہے جبکہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کا خطرہ غالب ہو۔ عکاف کا حال رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوگا کہ وہ صبر نہیں کرسکتے۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کرنے کا حکم دیا اور تبتُّل یعنی بےنکاح رہنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا (مظہری) اسی طرح کی اور بھی روایات حدیث ہیں۔ ان سب کا محمل جمہور فقہاء کے نزدیک وہی صورت ہے کہ نکاح نہ کرنے میں ابتلاء معصیت کا خطرہ غالب ہو۔ اسی طرح اس پر بھی تقریباً سبھی فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس شخص کو بظن غالب یہ معلوم ہو کہ وہ نکاح کرنے کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوجائے گا مثلاً بیوی کے حقوق زوجیت ادا کرنے پر قدرت نہیں اس پر ظلم کا مرتکب ہوگا یا اس کے لئے نکاح کرنے کی صورت میں کوئی دوسرا گناہ یقینی طور پر لازم آجائے گا ایسے شخص کو نکاح کرنا حرام یا مکروہ ہے۔
اب اس شخص کا حکم باقی رہا جو حالت اعتدال میں ہے کہ نہ تو ترک نکاح سے گناہ کا خطرہ قوی ہے اور نہ نکاح کی صورت میں کسی گناہ کا اندیشہ غالب ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں کہ اس کو نکاح کرنا افضل ہے یا ترک نکاح کر کے نفلی عبادات میں مشغول ہونا افضل ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نفلی عبادات میں لگنے سے افضل نکاح کرنا ہے اور امام شافعی کے نزدیک اشتغال عبادت افضل ہے۔ وجہ اس اختلاف کی اصل میں یہ ہے کہ نکاح اپنی ذات کے اعتبار سے تو ایک مباح ہے جیسے کھانا پینا سونا وغیرہ ضروریات زندگی سب مباح ہیں اس میں عبادت کا پہلو اس نیت سے آجاتا ہے کہ اس کے ذریعہ آدمی اپنے آپ کو گناہ سے بچا سکے گا اور اولاد صالح پیدا ہوگی تو اس کا بھی ثواب ملے گا اور ایسی نیک نیت سے جو مباح کام بھی انسان کرتا ہے وہ اس کے لئے بالواسطہ عبادت بن جاتی ہے کھانا پینا اور سونا بھی اسی نیت سے عبادت ہوجاتا ہے اور اشتغال بالعبادت اپنی ذات میں عبادت ہے اس لئے امام شافعی عبادت کے لئے خلوت گزینی کو نکاح سے افضل قرار دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نکاح میں عبادت کا پہلو بہ نسبت دوسرے مباحات کے غالب ہے احادیث صحیحہ میں اس کو سنت المرسلین اور اپنی سنت قرار دے کر تاکیدات بکثرت آئی ہیں۔ ان روایات حدیث کے مجموعہ سے اتنا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نکاح عام مباحات کی طرح مباح نہیں بلکہ سنت انبیاء ہے جس کی تاکیدات بھی حدیث میں آئی ہیں صرف نیت کی وجہ سے عبادت کی حیثیت اس میں نہیں بلکہ سنت انبیاء ہونے کی حیثیت سے بھی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس طرح تو کھانا پینا سونا بھی سنت انبیاء ہے کہ سب نے ایسا کیا ہے مگر جواب واضح ہے کہ ان چیزوں پر سب انبیاء کا علم ہونے کے باوجود یہ کسی نے نہیں کہا نہ کسی حدیث میں آیا کہ کھانا پینا اور سونا سنت انبیاء ہے بلکہ اس کو عام انسانی عادت کے تابع انبیاء کا عمل قرار دیا ہے بخلاف نکاح کے اس کو صراحة سنت المرسلین اور اپنی سنت فرمایا ہے۔

اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ اس میں ان غریب فقیر مسلمانوں کے لئے بشارت ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لئے نکاح کرنا چاہتے ہیں مگر وسائل مالیہ ان کے پاس نہیں کہ جب وہ اپنے دین کی حفاظت اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنے کی نیت صالحہ سے نکاح کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو مالی غنا بھی عطا فرما دیں گے اور اس میں ان لوگوں کو بھی ہدایت ہے جن کے پاس ایسے غریب لوگ منگنی لے کر جائیں کہ وہ محض ان کے فی الحال غریب فقیر ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار نہ کردیں۔ مال آنے جانے والی چیز ہے اصل چیز صلاحیت عمل ہے اگر وہ ان میں موجود ہے تو ان کے نکاح سے انکار نہ کریں ۔۔۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ مگر یہ یاد رہے کہ نکاح کرنے والے کو غنی اور مال عطا فرمانے کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی حال میں ہے جبکہ نکاح کرنے والے کی نیت اپنی عفت کی حفاظت اور سنت پر عمل ہو اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد ہو اس کی دلیل اگلی آیت کے یہ الفاظ ہیں: وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ یعنی جو لوگ مال و اسباب کے لحاظ سے نکاح پر قدرت نہیں رکھتے اور نکاح کرنے میں یہ خطرہ ہے کہ بیوی کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوجائیں گے ان کو چاہئے کہ عفت اور صبر کے ساتھ اس کا انتظار کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے اور اس صبر کے لئے ایک تدبیر بھی حدیث میں یہ بتلا دی گئی ہے کہ کثرت سے روزے رکھا کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اتنے مالی وسائل عطا فرمائیں گے جن سے نکاح پر قدرت ہوجائے۔"

(معارف القرآن، سورۃ النور، آیت: ۳۲، ط: مکتبۃ المعارف)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144605100823

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں