میں نے ایک طلاق نامہ لکھوایا، جس کا مقصد اپنی بیوی کو تنبیہ کرنا تھا، طلاق کا کوئی ارادہ نہیں تھا، طلاق نامہ میں طلاق کے صریح الفاظ بھی نہیں لکھوائے،صرف یہ لکھوایا کہ "میں نے اپنی بیوی کو اپنی زوجیت سے علیحدہ کردیا ہے جو کہ میاں بیوی کے دستخط یا نشانِ انگوٹھا ثبت کرنے پر واقع ہوگی" اور اس میں میں نے طلاق کی کوئی نیت نہیں کی، اور نہ ہی اس میں کوئی تاریخ درج کی ،اور نہ ہی میرے اور میری اہلیہ کے دستخط ہیں، جب کہ اس طلاق نامہ میں میں نے یہ درج کروایا تھا کہ علیحدگی دونوں (زوجین) کے دستخط اور نشانِ انگوٹھا ثبت کرنے پر واقع ہوگی، دونوں نے اس پر دستخط وغیرہ نہیں کیے، اور اس علیحدگی کے الفاظ سے میری طلاق کی نیت نہیں تھی، یہ لکھوانے کے بعد میں نے طلاق نامہ لپیٹ کر اپنی بیوی کو دیااور کہا کہ آپ اس کو پڑھ کر عمل کرو یا پھاڑ دو ،بیوی نے اس کو بغیر پڑھے جلا دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں ہوئی؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کے مذکورہ الفاظ "میں نے اپنی بیوی کو اپنی زوجیت سے علیحدہ کردیا ہے "کے لکھوانے کے بعد علیحدگی کو زوجین کے دستخط و نشانِ انگوٹھا کے ثبت کے ساتھ مشروط کیا ہے اورشوہر کی مذکورہ الفاظ سے طلاق کی کوئی نیت بھی نہیں تھی اور نہ بعد میں اس پر میاں اوربیوی نے دستخط کیے، اور نہ شوہر نے زبانی طلاق دی،اور نہ ہی لکھ کر دی، لہٰذا اس مذکورہ صورت میں سائل کی بیوی پرکوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما لأنها توجب عموم الأفعال فإذا كان الجزاء الطلاق والشرط بكلمة كلما يتكرر الطلاق بتكرار الحنث حتى يستوفي طلاق الملك الذي حلف عليه فإن تزوجها بعد زوج آخر وتكرر الشرط لم يحنث عندنا كذا في الكافي."
(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، ج: 1، ص: 452، ط: دارالكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"باب التعليق (هو) لغة من علقه تعليقا قاموس: جعله معلقا. واصطلاحا (ربط حصول مضمون جملة بحصول مضمون جملة أخرى) ويسمى يمينا مجازا وشرط صحته كون الشرط معدوما على خطر الوجود؛ فالمحقق كإن كان السماء فوقنا تنجيز، والمستحيل كإن دخل الجمل في سم الخياط لغو وكونه متصلا إلا لعذر وأن لا يقصد به المجازاة."
رد المحتار: "(قوله واصطلاحا ربط إلخ) فهو خاص بالمعنوي والمراد بالجملة الأولى في كلامه جملة الجزاء، وبالثانية جملة الشرط، وبالمضمون ما تضمنته الجملة من المعنى، فهو في مثل إن دخلت الدار فأنت طالق ربط حصول طلاقها بحصول دخولها الدار."
(كتاب الطلاق، باب التعليق، ج: 3، ص: 342، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100142
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن