بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تعمیر سے پہلے مکان فروخت کرنے کا حکم


سوال

ہم ایک مشہور رئیل اسٹیٹ ڈویلپر، بلڈر اور ٹھیکیدار ہیں، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم اپنا کاروبار کیسے چلاتے ہیں۔

ہم اس منصوبے کی تفصیلات کے ساتھ اعلان کرتے ہیں، پھر لوگ اور کمپنیاں ہمیں قسطوں میں ادائیگی کرتے ہیں اور اس ادائیگی سے ہم تعمیر شروع کرتے ہیں اور جب ادائیگی مکمل ہو جاتی ہے تو ہم مکمل شدہ یونٹس کو پراجیکٹ کے حقیقی مالکان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ہم نئے ممکنہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے کچھ نئی شرائط و ضوابط کے ساتھ ایک نیا پروجیکٹ شروع کر رہے ہیں۔ نئی شرائط و ضوابط درج ذیل ہیں:

1: مذکورہ اپارٹمنٹ یا دفتر کی تکمیل اور حوالے کرنے کے بعد، مالک کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ ہمیں فلیٹ/اپارٹمنٹ فروخت کر سکتا ہے اگر وہ ایسا کرنا چاہے۔ یہ تکنیکی طور پر واپس خریدنا ہے لیکن یہ مالک کے لیے انتخاب ہے۔ اپارٹمنٹ یا آفس کی بکنگ کے وقت بائی بیک قیمت پر پہلے سے اتفاق کیا جائے گا۔

2: کم از کم( 18)ویں مہینے سے پہلے، سرمایہ کار/مالک کو یہ انتخاب کرنا چاہیے کہ آیا وہ اسے مقررہ رقم پر بلڈر کو واپس فروخت کرنا چاہتا ہے۔ بصورت دیگر، بلڈر بعد میں اسے واپس خریدنے کا پابند نہیں ہے۔

3: مالک اپنی مرضی سے فلیٹ کرایہ پر بھی دے سکتا ہے۔

4: مذکورہ اپارٹمنٹ یا دفتر کی تکمیل اور حوالے کرنے کے بعد، ہم مالک کو کرایہ کی پیشکش کریں گے۔ کرایہ غیر مشروط ہے، یعنی کرایہ ان کو ادا کیا جائے گا چاہے کوئی حقیقی کرایہ دار ہو یا نہ ہو۔ اپارٹمنٹ یا آفس کی بکنگ کے وقت کرایہ کی رقم پر پہلے سے اتفاق کیا جائے گا۔

5: اپارٹمنٹ یا دفتر کے مالک کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ خود یا کسی دوسری اسٹیٹ ایجنسی کی مدد سے بھی کسی کو فلیٹ فروخت کرے۔ 

6: مالک کو اپارٹمنٹ یا دفتر اپنے لیے رہنے یا استعمال کرنے کا حق اور اختیار ہے۔

جواب

واضح رہے کہ جس  بلڈنگ  كی ابھی تک تعمیر نہ ہوئی ہو، اُس کے  فلیٹ جو صرف نقشے کی حد تک موجود ہوں، ان کی باقاعدہ خرید و فروخت  كرنا جائز نہیں ہے؛  اس لیے کہ یہ ایک معدوم چیز کی بیع ہے اور معدوم چیز کی بیع شرعا باطل ہے،البتہ  جواز  کی دو صورتیں ہیں:

1۔  ایک یہ ہے کہ جو مکان  لوگوں کو فروخت کئےجارہے ہوں اس کا کچھ نہ کچھ اسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچاوغیرہ  بن چکا ہو، ایسی صورت میں اُس کا سودا کیا جاسکتا ہے۔

2۔  جس مکان کا ڈھانچہ بھی نہ بنا ہو  مثلاً ابھی ایک منزل بھی نہیں بنی اور تیسری منزل کے مکانات بیچے جا رہے ہوں تو یہ سودا جائز نہیں ہے، البتہ اس صورت میں وعدۂ بیع  (خریداری کا وعدہ)  کیا جاسکتا ہے،  یعنی صرف بکنگ کی جاسکتی ہے   کہ  مثلاً    فلاں فلیٹ فلاں کو  فروخت کیا جائے گا، اور اس بکنگ کی مد میں اس سے ایڈوانس رقم بھی لینا جائز ہو گا۔

صورتِ مسئولہ میں جو پروجیکٹ اب تک تیار ہی نہ ہوا ہو اور اُس کا ڈھانچہ بھی کھڑا نہ ہوا ہو تو اس پروجیکٹ کو فروخت کرنا اور اس مد میں لوگوں سے بیک مشت رقم وصول کرنا یا قسطوں میں وصول کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر پروجیکٹ مکمل ہونے سے پہلے فروخت کرنا ہے، تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ لوگوں سے وعدہ بیع کیا جائے، یا پروجیکٹ کا کچھ ڈھانچہ تعمیر ہونے کے بعد فروخت کیا جائے، تو درست ہوگا، نیز مکان مکمل ہونے کے بعد  اگر مالک نے پوری رقم ادا کردی تو بلڈر کو کم یا زیادہ قیمت میں بھی فروخت کرنا اور اجارہ پر دینا جائز ہوگا، اور اگر مالک یعنی خریدار نے پوری رقم ادا نہیں کی تو قیمت خرید سے کم یا زیادہ میں بلڈر کو فروخت کرنا اور اجارہ پر دینا جائز نہیں ہوگا، البتہ بلڈر کے علاوہ کسی اور آدمی کو کم و زیادہ پر بھی فروخت کرنا اور اجارہ پر دینا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم الخ."

(کتاب البیوع، فصل فی الشرائط اللذی یرجع الی المعقود علیه، ج:5، ص:138، ط:سعید)

فتاویٰ شامی    میں ہے:

"وفي جامع الفصولين أيضا: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس تبايعا بلا ذكر شرط الوفاء ثم شرطاه يكون بيع الوفاء".

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:84، ط:ایچ ایم سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرعاً (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثياباً أو أواني؛ ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو داراً لا ليسكنها أو عبداً أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين".

(كتاب الإجارة، ج:6، ص:4، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504100069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں