بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعمیری اخراجات اور میراث کے متعین کردہ حصہ کا حکم


سوال

میرے والد صاحب کے انتقال کے وقت ورثاء میں بیوہ، چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، والد مرحوم کے ترکہ میں ایک پلاٹ تھا، جس کی قیمت آٹھ لاکھ روپے تھی، آدھے پلاٹ کو فروت کرکے مرحوم کے بڑے دو بیٹوں کو ان کا حصہ اس وقت کے لحاظ سے 1 لاکھ 27 ہزار روپے جو بنتا تھا، اسی وقت انہیں دے دیا گیا، کیونکہ وہ شادی شدہ تھے اور اپنے ذاتی گھروں میں رہتے تھے، مرحوم کی تینوں بیٹیاں بھی شادی شدہ تھیں، ان کو بھی میں نے حصہ دینا چاہا، لیکن ان تینوں نے کہا کہ ہمارے حصہ کی رقم جو 63 ہزار 5 سو روپے بنتی ہے اور یہ رقم ان کی متعین ہوگئی تھی، اسے آپ اس پلاٹ کی تعمیر پر لگا لو اور اسے ہماری طرف سے ادھار سمجھا جائے، صرف میں، میری والدہ اور میرے چھوٹے بھائی کا باقی آدھے پلاٹ میں حصہ رہ گیا، والدہ نے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو اپنا حصہ قبضہ کیے بغیر دے دیا اور کہا کہ میرا حصہ تم دونوں پلاٹ کی تعمیر پر لگادو، اس وقت تک ہم دو بھائی اور والدہ کرایہ کے مکان میں رہتے تھے، پھر میں نے پلاٹ کو بنایا اور ساری تعمیر اپنے خرچے پر ورثاء کی اجازت سے کی اور تعمیر کے اخراجات بعد میں وصول کرنے کی بات بھی کی، مجھ سے چھوٹے بھائی نے اس پر کوئی خرچہ نہیں کیا اور نہ وہ کماتا تھا،پلاٹ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد  پھر میں، میرا چھوٹا بھائی اور والدہ اس تعمیر شدہ پلاٹ میں رہنے لگے، اب جب والدہ کا انتقال ہوا تو تینوں بہنیں چھوٹےبھائی کو ساتھ ملاکر یہ کہتی ہیں کہ ہمیں آج کے حساب سے پوری اس عمارت میں سے حصہ دیا جائے، پوچھنا یہ ہے کہ تینوں بہنوں کو کس حساب سے حصہ دیا جائے گا اور چھوٹے بھائی کو کس حساب سے اور مجھے میری تعمیر کے اخراجات ملیں گے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی تینوں بہنوں میں سے ہر ایک کا حصہ 63 ہزار 5 سو روپے چونکہ متعین ہوگیا تھا اور انہوں نے مذکورہ حصہ کو یہ کہہ کر اپنے بھائی کے حوالے کیا تھا کہ اسے ادھار سمجھا جائے، اس لیے اب ان میں سے ہر ایک کا حصہ والد مرحوم کے ترکہ میں صرف 63 ہزار 5 سو روپے ہی ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

سائل نے مذکورہ پلاٹ پر جتنی تعمیر کی تھی تو وہ چونکہ سب کی اجازت سے اور اس معاہدے کے ساتھ کی تھی کہ بعد میں، میں یہ سارے اخراجات وصول کروں گا، اس لیے اسے اس کی تعمیر کے اخراجات ملیں گے۔

باقی مذکورہ پلاٹ میں سائل، اس کے چھوٹے بھائی اور ان کی والدہ کا حصہ چونکہ متعین نہیں ہوا تھا، اس لیے تعمیر کے اخراجات نکالنے کے بعد باقی پلاٹ کی آج کل کے حساب سے جو مارکیٹ ویلیو ہوگی، اسی حساب سے ان تینوں کو اپنا حصہ ملے گا، سائل کی والدہ چونکہ وفات پاگئی ہیں اور انہوں نے اپنا حصہ سائل اور اس کے چھوٹے بھائی کو  قبضہ کیے بغیر  دے دیا تھا، اس لیے وہ حصہ سائل اور اس کے چھوٹے بھائی کی ملکیت میں نہیں آیا، بلکہ بدستور والدہ کی ملکیت رہا، لہٰذا اب مرحومہ والدہ کے انتقال کے بعد ان کا مذکورہ پلاٹ میں آج کل کے حساب سے جو حصہ بنتا ہے، وہ سارا ترکہ ہے اور اس میں سب ورثاء یعنی چاروں بھائی اور تینوں بہنیں اپنے اپنے حصوں کے اعتبار سے حق دار ہیں۔

سائل کی والدہ مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ان کے ترکہ میں سے ان کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، ان پر اگر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، انہوں نے اگر  کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کےایک تہائی میں اسے نافذ کرنے کےبعد، باقی متروکہ جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے 11 حصے کرکے مرحومہ کے چار بیٹوں میں سے ہر ایک کو 2 حصے اور تین بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: 11

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
2222111

یعنی 100 روپے میں سے مرحومہ کے چار بیٹوں میں سے ہر ایک کو 18.181 روپے اور تین بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 9.090 روپے ملیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومن بنى أو غرس في أرض غيره بغير إذنه، أمر بالقلع والرد) لو قيمة الساحة أكثر كما مر، (وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو شجر أمر بقلعه) أي مستحق القلع فتقوم بدونهما ومع أحدهما مستحق القلع فيضمن الفضل (إن نقصت الأرض به) أي بالقلع.

وفي الرد: (قوله: بغير إذنه) فلو بإذنه، فالبناء لرب الدار، ويرجع عليه بما أنفق، جامع الفصولين من أحكام العمارة في ملك الغير."

(کتاب الغصب، مطلب في رد المغصوب، ج:6، ص:194/ 195، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں