بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظ "تلاک، تلاک، تلاک" سے طلاق کا حکم


سوال

ایک آدمی نےمیسج میں لفظ "تلاک، تلاک، تلاک" تین مرتبہ بھیجااوربیوی کےبھائی کوکال میں بتایاکہ میں طلاق دیتاہوں، بھائی نےکہاطلاق دےدو۔اس نےکہامیں طلاق دیتاہوں، آئے  گی توبراہوگا، اب شرعًاکتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بیوی کو  میسج میں تین مرتبہ  لفظِ "تلاک"  لکھ کر بھیجنے سے  تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،عورت شوہر پرحرمتِ مغلظہ کے ساتھ   حرام ہوچکی ہے۔

الدر المختار میں ہے:

( ويقع بها ) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو ط ل ق.

(حاشية ابن عابدين: کتاب الطلاق، باب الصریح 1/ 207 ط : سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

هاهنا خمسة ألفاظ : تلاق وتلاغ وطلاغ وطلاك وتلاك، عن الشيخ الإمام الجليل أبي بكر محمد بن الفضل - رحمه الله تعالى - أنه يقع وإن تعمد و قصد أن لا يقع و لا يصدق قضاء و يصدق ديانة إلا إذا أشهد قبل أن يتلفظ به.

(الفتاوى الهندية: كتاب الطلاق،الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الأول في الطلاق الصريح   1/ 357 ط : سعيد)

فقط، والله اعلم


فتوی نمبر : 144209201040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں