بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طالب علم یا کسی تبلیغی شخص کے لیے بیوی سے چارماہ دور رہنے کا حکم اور عورت کے لیے فضیلت کی حدیث


سوال

 ایک طالب علم مدرسہ میں پڑھتا ہے یا ایک آدمی تبلیغی جماعت میں جاتا ہے اور اس کی بیوی اپنے شوہر کے گھر پر رہتی ہے اپنی ساس کے ساتھ عورت کو خاوند کی بہت ضرورت رہتی ہے اس پر وہ صبر کرتی ہے کیا اس کےمتعلق کوئی حدیث ہے کہ عورت کو اس صبر کرنے پر کیا ملےگا ؟فضیلت کی کوئی حدیث ہو تو براۓ کرم بتاۓ۔

جواب

واضح رہے کہ جو عورت شوہر کی غیر موجودگی میں صبر کے ساتھ اپنے خاوند کا انتظار کرےاور پاکدامنی کے ساتھ رہے تو احادیثِ مبارکہ میں اس عورت کو جنت کی بشارت دی گئی ہےلہذا صورتِ مسئولہ میں کوئی عورت اپنے شوہر کی  غیر موجودگی میں اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرتی ہو تو اس بارے میں نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے ، کہ حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔

البتہ چار ماہ کے اندر اندر بیوی کی اجازت کے بغیر بیوی سے دور رہنے کی اجازت ہے ،اس سے زائد عرصہ میں بیوی سے اجازت لینی چاہیے ، بیوی کے اجازت کے بغیر جائز نہیں،نیز اجازت کے باوجود جواز تب ہے کہ دونوں میں سےکسی ایک کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ ہو ،اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں  چار ماہ سے زائد بیوی سے دور رہناجائز   نہیں، اگر چہ مدت کم ہو اور بیوی بھی   راضی ہو ۔

مشکاۃ شریف میں ہے :

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة ‌إذا ‌صلت ‌خمسها ‌وصامت ‌شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت» . رواه أبو نعيم في الحلية"

(باب عشرۃ النساء، ج: 2، ص: 971،  ط: المكتب الإسلامي بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها،(قوله ولا يبلغ مدة الإيلاء) تقدم عن الفتح التعبير بقوله ويجب أن لا يبلغ إلخ. وظاهره أنه منقول، لكن ذكر قبله في مقدار الدور أنه لا ينبغي أن يطلق له مقدار مدة الإيلاء وهو أربعة أشهر، فهذا بحث منه كما سيذكره الشارح فالظاهر أن ما هنا مبني على هذا البحث تأمل، ثم قوله وهو أربعة يفيد أن المراد إيلاء الحرة، ويؤيد ذلك أن عمر - رضي الله تعالى عنه - لما سمع في الليل امرأة تقول: فوالله لولا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد، فسأل بنته حفصة: كم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لا يتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها، ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها."

(کتاب النکاح، باب القسم بین الزوجات، ج: 3، ص: 203، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101018

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں