بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

طالب علم سے لیٹ فیس کی صورت میں مالی جرمانہ لینے کا حکم


سوال

ہمارے مدارس میں درج ذیل قوانین ہیں، کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟

1. اگر داخلہ مقررہ ایام کے اندر نہیں ہوا تو پرانے طالب علم کو مقررہ فیس سے زائد رقم ادا کرنی ہوگی، مثال کے طور پر پرانے طلباء کی داخلہ فیس 1500 ٹاکا ہے،  اگر کوئی پرانا طالب علم مدرسہ کھلنے کے تین دن کے اندر داخلہ نہ لے سکے تو اسے داخلہ کے لیے 1800 روپے ادا کرنے ہوں گے۔

2. اگر امتحانی فیس مقررہ تاریخ کے اندر ادا نہیں کی جاتی ہے تو کیا لیٹ فیس وصول کرنا جائز ہے؟ مثال کے طور پر 200 روپے کی امتحانی فیس دس دنوں کے اندر ادا کرنی ہوگی، اس کے بعداگر ادا کرے تو کل 300 روپے ادا کرنے ہوں گے۔

3. اگر کوئی مدرسہ کھلنے کی مقررہ تاریخ پر حاضر نہ ہو، تو سزا کے طور پر اس سے 100 یا 200 روپے لے کر کھانا جاری کیا جائے گا، اس صورت میں غیر حاضری کے دنوں کو مد نظر رکھتے ہوئے  وصول شدہ رقم کم و بیش ہوتی ہے۔

4. جو طالب علم مدرسہ کی طرف سے کھانے کے لیے مقرر کردہ رقم سے کم روپے دے کر کھانا لیتا ہے، مثال کے طور پر مدرسہ کے کھانے کی مقررہ رقم دو ہزار روپے ہے جو طالب علم 2000 ٹاکے سے کم ادا کرتا ہے (مثال کے طور پر 1000 یا 1200 ٹاکا) اگر وہ امتحان میں ایک کتاب میں فیل ہو، تو اسے کھانا جاری کرنے کے لیے  200  ٹاکے زیادہ ادا کرنے ہوں گے،اور اگر وہ ایک سے زیادہ کتاب میں فیل ہو، تو اسے 500 روپے زیادہ ادا کرنا ہوں گے۔ مذکورہ زیادہ رقم ہر ماہ ادا کرنے کے بعد اس کا کھاناجاری کیا جاتا ہے، یہ قانون اگلے امتحان تک رہے گا، واضح رہے کہ اگر طالب علم کھانے کے لیے مقرر کردہ پوری رقم ادا کرے، تو امتحان میں فیل ہونے پر کوئی اضافی فیس اس سے نہیں لی جائے گی۔ 

جواب

1. صورتِ مسئولہ میں مقررہ ایام کے اندر داخلہ نہ ہونے کی صورت میں مقررہ داخلہ فیس سے زائد لینا جائز نہیں ہے،  یہ  تعزیر بالمال(مالی جرمانہ ) کے زمرے میں آتا ہے  اور تعزیر بالمال شرعاً ناجائز ہے۔

2. طالب علم کی طرف سےمقر رہ تاریخ پر امتحانی فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس سے اضافی فیس وصول کرنا مندرجہ بالا وجہ سے جائز نہیں ہے۔

3.اوراگر کوئی مدرسہ کھلنے کی مقررہ تاریخ پر حاضر نہ ہو سکے تو کھانا جاری کرنے کے لیے سزا کے طور پر اس سے 100 یا 200  یا کم وبیش  رقم لیناجائز نہیں ہے، کیوں کہ یه تعزير  بالمال(مالی جرمانہ ) کے زمرے میں آتا ہے  اور تعزیر بالمال شرعًا ناجائز ہے،  لہذا اضافی رقم لینے کی صورت میں طالب علم کو یہ رقم واپس کرنا ضروری ہے ۔

4. جن طلبہ کو کھانے کی قیمت میں رعایت دی گئی ہو، ان میں سے کسی کے امتحان میں مجموعی طور پر یا ایک آدھ کتاب میں فیل ہونے پر دی گئی رعایت سرے سے ختم کرنے یا رعایت میں کمی کرنے کی اجازت ہوگی ،لیکن اس پر دو سو یا پانچ سو اضافی رقم لینا جائز نہیں ہوگا،  یہ بھی تعزیر بالمال کے تحت آئے گا۔

حاصل یہ کہ کوتاہیوں پر بطور سزا یا بطور تنبیہ طے کردہ فیس سے زیادہ لینا تعزیر بالمال ہےجو کہ جائز نہیں ،البتہ اگر طے کردہ فیس میں اچھی کارگردگی پر رعایت رکھی جائے اور اچھی کارکردگی نہ کرنے پر وہ رعایت واپس لی جائے تو یہ تعزیر بالمال میں شمار نہیں اور یہ صورت جائز ہے۔

 مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرّة الرُقاشيّ عن عمه قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم: ألا تظلموا ألا لا يحلّ مال امرئ إلاّ ‌بطيب نفس منه."

(کتاب البیوع، باب الغصب والعاریة، رقم الحدیث:2946، ج:2، ص:9، ط:المکتب الإسلامی)

ترجمہ:’’حضرت ابو حرّہ رقاشی رحمہ اللہ نے اپنے چچا سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :خبردار کسی پر ظلم نہ کرنا،اچھی طرح سنو کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔‘‘ (مظاہر حق)

 فتاوی  شامی   میں ہے:

"(ويكون به و) بالحبس و (بالصفع) على العنق .... (لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى.

(قوله: لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز.  ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف ...... (قوله: وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن ‌معنى ‌التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي. وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(کتاب الحدود، باب التعزیر ، ج:4،ص:61۔62،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144511102412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں