بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جوان بہو کا سسر کے ساتھ ایک گھر میں رہنے کا حکم


سوال

 میری نئی نئی شادی ہونے والی ہے اور ایک طرف میں امسال ہی عالمی کورس سے فارغ ہونے والا  طالب علم ہوں اور میری امی کی خواہش ہے کہ میں اپنی تعلیم بھی برقرار رکھوں ،یعنی میں (علم ِافتاء )میں قدم رکھوں تقریبا میرےافتاء کا دورانیہ کل تین سالہ ہوگا اور لڑکی والوں کی خواہش ہے کہ اگر میں افتاء پڑھنے جاؤ ، تو اپنی ہونےوالی زوجہ کو درسی ٹائم یعنی صبح 7 بجے سے دو پہر 12 بجے تک اور اس کے بعد میرا کام 12 بجے سے رات 6 بجے تک ( جب تک میں افتاء اور کام میں ہوں ) اسے میکہ بھیجوں!! میرے ابو کےساتھ تنہا وہ رہنا نہیں چاہتی،  حالاں کہ کمرہ الگ الگ ہے،  ایک ہی گھر میں، ہم اپنے ابو کےساتھ رہتے ہیں اور لڑکی ابو کے ساتھ میرے بغیر ایک گھر میں رہنا نہیں چاہتی،  لڑکی کا کہنا ہے جب میں گھر میں ہوں گا  تب وہ رہنے آئے گی، یعنی درس ختم اور کام سے فارغ ہونےکےبعد،  حالاں کہ ایک ہی گھر ہے، مگر اوپر کا بالائی حصہ میں لڑکی کے لیے  ایک الگ کمرہ مقرر ہے اور ابو الگ سے نیچے رہتے ہیں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میری زوجہ میکہ صرف 4 دن ہی جائے اور 3 دن گھر میں ہی رہے اور وہ روزانہ میکہ جانے کا مطالبہ کر رہی ہے،  مگر معاملہ سلجھ نہیں رہا،   مجھے یہ جاننا ہے کہ کیا لڑکی کا ابو کے ساتھ گھر میں رہنا کوئی حرج ہے؟ اور میں اس مسئلے کو کیسے سلجھاؤ ں؟

جواب

  صورتِ مسئولہ میں اگر والدہ وغیرہ   گھر میں   ہیں خلوت کی صورت نہ ہو تو بیوی کا روزانہ میکے جانے  کا مطالبہ درست نہیں ہے، ہفتہ میں ایک مرتبہ میکے  جانے  کی اجازت ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: ويؤيده كراهة الخلوة بها كالصهرة ‌الشابة فينبغي استثناء الصهرة ‌الشابة هنا أيضا لأن السفر كالخلوة."

(كتاب الحج، ج:2، ص:464، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"ولعل وجهه خشية الفتنة حيث كانوا رجالا معها في بيت واحد وإن كانوا محارم لها بكونهم أولاد زوجها كما قالوا بكراهة الخلوة بالصهرة ‌الشابة."

(كتاب الطلاق، باب العدة،  فصل في الحداد، ج:3، ص:537، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"والخلوة بالمحرم مباحة إلا الأخت رضاعا،والصهرة الشابة وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة...(قوله والصهرة الشابة) قال في القنية: ماتت عن زوج وأم فلهما أن يسكنا في دار واحدة إذا لم يخافا الفتنة وإن كانت الصهرة شابة، فللجيران أن يمنعوها منه إذا خافوا عليهما الفتنة اهـ وأصهار الرجل كل ذي رحم محرم من زوجته على اختيار محمد والمسألة مفروضة هنا في أمها والعلة تفيد أن الحكم كذلك في بنتها ونحوها كما لا يخفى."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ج:6، ص:369، ط؛سعيد)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"إذا كانت شابة يخشى عليها الفتنة من الخلوة معهم فإنهم وإن كانوا محارم لها لكن قد يمنع المحرم كما قالوا بكراهة الخلوة بالصهرة ‌الشابة تأمل."

( كتاب الطلاق ،باب العدة ،باب ثبوت النسب،  ج:4، ص:168، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويجوز له أن يسافر بها ويخلو بها يعني بمحارمه إذا أمن على نفسه، فإن علم أنه يشتهيها أو تشتهيه إن سافر بها أو خلا بها أو كان أكبر رأيه ذلك أو شك فلا يباح له ذلك."

(کتاب الکراهية، ‌‌ الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له،  ج :5،  ص:328،  ط: دار الفکر)

المحيط البرهاني میں ہے:

"قال محمد رحمه الله: ويجوز له أن يسافر بها، وأن يخلو بها يعني لمحارمه إذا أمن على نفسه، وهذا لقوله عليه السلام: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر فوق ثلاثة أيام ولياليها إلا ومعها زوجها، أو ذي رحم محرم ، فقد أباح للمرأة المسافرة مع ذي الرحم المحرم، وإنه يوجب إباحة المسافرة للمحرم معها، ولأن حرمة المسافرة والخلوة بالأجنبيات لخوف الفتنة بواسطة الشهوة، والإنسان لا يشتهي محارمه غالباً، فصار من هذا الوجه كالخلوة والمسافرة مع الجنس، فإن علم أنه يشتهيها، أو ‌تشتهيه لو سافر بها أو ‌خلا ‌بها، أو كان أكثر رأيه ذلك أو شك، فلا يباح له ذلك لما ذكرنا."

 (‌‌‌‌كتاب الاستحسان والكراهية ،الفصل التاسع فيما يحل للرجل النظر إليه..، ج:5، ص:333، دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں