بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلبہ کو سزا دینے کی شرعی حدود کیا ہیں؟


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:دینی و دنیاوی اداروں میں اساتذہ بچوں کی درج ذیل وجوہات کی بنا پر مارپٹائی کرتے ہیں یا چھٹی بند کردیتے ہیں:

بچے سبق یاد نہیں کرتے،کھیل کود اور مستیاں کرتے ہیں،دوران پڑھائی باتیں کرتے ہیں،مقررہ اوقات سے کچھ تاخیر کرکے آتے ہیں۔

 کیا ان وجوہات یا اس کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنا پر اس قسم کی سزائیں دینا جائز ہے؟

کیا شریعت نے ان صورتوں میں سزائیں دینے کی اجازت دی ہے؟

اگر دی ہے تو اس کی کیا حدود ہیں؟

اور اگر عذر کی وجہ سے سبق یاد نہ ہو یا مقررہ وقت سے کچھ تاخیر سے تعلیم گاہ میں حاضر ہو تو اس صورت میں سزائیں دینا کس حد تک جائز ہے؟

قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر ممنون ہوں۔

جواب

شریعتِ مطہرہ نے تربیتِ اولاد کے حوالہ سے ترتیب یہ مقرر کی ہے کہ جب بچہ میں سمجھ بوجھ پیدا ہوجائے  ( یعنی جب وہ خود کھانے پینے لگے، استنجا کرسکے )تو اسے عادی بنانے کے لیے اچھی باتوں کا حکم دیا جائے، اور بری باتوں سے روکا جائے،  یہ ابتدائی درجہ ہے، جس کے لیے بچے کی عمر سات سال ہونا ضروری نہیں،  بس سمجھ بوجھ پیدا ہوجانا کافی ہے، مزید سمجھ آجانے کے  بعد بھی  اگر وہ کوتاہی کرے تو اسے ڈرایا جائے،یہ قریب سات سال کی عمر ہے، پھر بھی کوتاہی کرتا رہے تو اسے اس کے اس عمل پر ملامت کی جائے، عار دلائی جائے، یہ  سات سال اور  دس سال کی درمیانی عمر ہے، اگرچہ اس عمر میں بھی بعض فقہاء کرام نے ہلکی مار کی اجازت بھی دی ہے، تاہم دس سال کی عمر مکمل ہونے سے قبل مارنے سے اجتناب کرنا چاہیے، لہذا دس سال کی عمر  ہوجانے کے  بعد  بھی اگر وہ کوتاہی کرتا رہے تو اس پر اسےہاتھ سے زیادہ سے زیادہ تین تھپڑ، اتنی قوت سے لگائے جا سکتے ہیں کہ جس مار کو وہ برداشت کرسکتا ہو، البتہ مارنے والے کے لیے  اپنی پوری  قوت سے بچے کو مارنا، یا تین تھپڑ سے زائد تھپڑ مارنا  شرعا جائز نہیں،  اور یہی حکم معلم کے لیے ہے، نیز معلم کو مارنے کی اجازت بچہ کے والد، یا ولی کی اجازت سے مشروط ہے، لہذا اگر بچہ کے والد نے مارنے کی اجازت نہ دی ہو تو اس صورت میں بچہ کو مارنے  کی معلم کو اجازت نہیں ہوگی، اسی طرح سے والد کی اجازت کے باوجود  چھڑی سے پٹائی کرنے کی معلم کو شرعا اجازت نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں کسی بھی تعلیمی ادارہ میں دس سال سے کم عمر بچے کی پٹائی کی شرعا اجازت نہیں، البتہ اس کی تربیت کے لیے یا اس کے کسی غلط عمل پر تنبیہ کرنے کے لیے اسے  ابتداءً سمجھایا جائے، اس پر بھی اصلاح نہ ہو تو  اسے ڈرایا جائے، اس پر بھی کوتاہی دور نہ ہو تو  اسے شرم دلائی جائے، اور جب دس سال کا ہوجائے تو والد کی اجازت سے  اسے ہاتھ سے تین تھپڑ لگانے کی اجازت ہوگی، اس صورت میں بھی والدین و اساتذہ کو چاہیے کہ تھپڑ مارنے کے بجائے ایسی سزا تجویز کریں  جو  بچہ کی ذہنی و جسمانی صحت کے لئے مفید ہو۔

 تفصیل بالا کو سامنے رکھتے ہوئے، ادارہ کی انتظامیہ قواعد و ضوابط مرتب کر سکتی ، جس کا مقصد طالب علم  کوتعلیم کی طرف راغب کرکے اسے  علمی میدان میں ترقی دینا ہو، کسی ایسی سزا کو تجویز کرنے سے اجتناب کرنا لازم ہے جو اسے خودسر و ہٹ دھرم بنانے اور تعلیم سے دلبرداشتہ کرنے کا باعث ہو۔ 

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

طرق تأديب الصبي:

٩- يؤدب الصبي بالأمر بأداء الفرائض والنهي عن المنكرات بالقول، ثم الوعيد، ثم التعنيف، ثم الضرب، إن لم تجد الطرق المذكورة قبله، ولا يضرب الصبي لترك الصلاة إلا إذا بلغ عشر سنين. لحديث: مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع.

ولا يجاوز ثلاثا عند الحنفية والمالكية والحنابلة.

( حرف التاء، تأديب، ١٠ / ٢٤، ط: دارالسلاسل - الكويت)

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

الضرب للتعليم:

١٣ - للمعلم ضرب الصبي الذي يتعلم عنده للتأديب. وبتتبع عبارات الفقهاء يتبين أنهم يقيدون حق المعلم في ضرب الصبي المتعلم بقيود منها:

أ - أن يكون الضرب معتادا للتعليم كما وكيفا ومحلا، يعلم المعلم الأمن منه، ويكون ضربه باليد لا بالعصا، وليس له أن يجاوز الثلاث، روي أن النبي عليه الصلاة والسلام قال لمرداس المعلم رضي الله عنه: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك.

ب - أن يكون الضرب بإذن الولي، لأن الضرب عند التعليم غير متعارف، وإنما الضرب عند سوء الأدب، فلا يكون ذلك من التعليم في شيء، وتسليم الولي صبيه إلى المعلم لتعليمه لا يثبت الإذن في الضرب، فلهذا ليس له الضرب، إلا أن يأذن له فيه نصا.

ونقل عن بعض الشافعية قولهم: الإجماع الفعلي مطرد بجواز ذلك بدون إذن الولي.

ج - أن يكون الصبي يعقل التأديب، فليس للمعلم ضرب من لا يعقل التأديب من الصبيان

قال الأثرم: سئل أحمد عن ضرب المعلم الصبيان، قال: على قدر ذنوبهم، ويتوقى بجهده الضرب وإذا كان صغيرا لا يعقل فلا يضربه.

( حرف التاء، تعليم و تعلم، ١٣ / ١٣، ط: دارالسلاسل - الكويت) .

رد المحتار على الدر المختارمیں ہے:

(قوله: بيد) أي ولا يجاوز الثلاث، وكذلك المعلم ليس له أن يجاوزها «قال - عليه الصلاة والسلام - لمرداس المعلم إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك» اهـ إسماعيل عن أحكام الصغار للأستروشني، وظاهره أنه لا يضرب بالعصا في غير الصلاة أيضا.

(قوله: لا بخشبة) أي عصا، ومقتضى قوله بيد أن يراد بالخشبة ما هو الأعم منها ومن السوط أفاده ط.

(قوله: لحديث إلخ) استدلال على الضرب المطلق، وأما كونه لا بخشبة فلأن الضرب بها ورد في جناية المكلف. اهـ

( كتاب الصلاة، ١ / ٣٥٢، ط: دار الفكر)

تحفة الحبيب على شرح الخطيب  ( حاشية البجيرمي على الخطيب )  میں ہے:

والتمييز بعد استكمال سبع سنين ويضرب على تركها بعد عشر سنين لخبر: «مروا الصبي أي والصبية بالصلاة إذا بلغ سبع سنين وإذا بلغ عشر سنين فاضربوه عليها» أي على تركها كما صححه الترمذي وغيره. تنبيه: ظاهر كلامهم أنه يشترط للضرب تمام العاشرة، لكن قال الصيمري: إنه يضرب في أثنائها، وصححه الإسنوي، وجزم به ابن المقري وهو الظاهر؛ لأنه مظنة البلوغ، ومقتضى ما في المجموع أن التمييز وحده لا يكفي في الأمر، بل لا بد معه من السبع.

وقال في الكفاية: إنه المشهور، وأحسن ما قيل في حد التمييز أنه يصير الطفل بحيث يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده، وفي رواية أبي داود: «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - سئل متى يصلي الصبي؟ قال: إذا عرف شماله من يمينه» قال الدميري: والمراد إذا عرف ما يضره وما ينفعه، قال في المجموع: والأمر والضرب واجبان على الولي أبا كان أو جدا أو وصيا أو قيما من جهة القاضي. 

قوله: (في أثنائها) المراد بالأثناء ما بعد التاسعة فيصدق بأول العاشرة ووجهه أنه متى مضى جزء منها يصدق عليه أنه في أثنائها.

قوله: (ويستنجي وحده) أي بعد تعليمه كيفية الاستنجاء وإلا فقبل تعليمه لا معرفة له به، فكيف يعرفه. قوله: (والأمر والضرب واجبان) أي وجوبا عينيا على الولي أي عند الانفراد ومثله الأم كما في الروض وحج وقدره ثلاث ضربات فلو حصل ذلك من غير الولي كفى، وفي البرماوي والآمر والضارب أصوله الذكور والإناث على سبيل فرض الكفاية، وللمعلم أيضا الأمر لا الضرب إلا بإذن الولي ومثله الزوج في زوجته. قال النووي: وشرائع الدين الظاهرة كالصوم لمن أطاقه ونحو السواك كالصلاة في الأمر والضرب، وحكمة ذلك التمرين على العبادة فلا يتركها إن شاء الله تعالى ولا يجاوز الضارب ثلاثا، وكذا المعلم يسن له أن لا يتجاوز الثلاث لقوله - صلى الله عليه وسلم - لمرداس المعلم: «إياك وأن تضرب فوق الثلاث فإنك إن تضرب فوقها أقتص منك» .

( كتاب الصلاة، فصل: فيمن تجب عليه الصلاة، شرائط وجوب الصلاة، ١ / ١٠٩ - ٤١٠، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں