1: اگر امتحان کی فیس مقررہ تاریخ کے اندر ادا نہیں کی جاتی ہے تو کیا اضافی لیٹ فیس وصول کرنا جائز ہے؟ مثال کے طور پر، امتحان کی فیس (200 روپے) دس تاریخ کے اندر ادا کرنا ضروری ہے، اس کے بعدآپ کو اضافی 100 روپے ادا کرنے ہوں گے۔
2:اگر کوئی مدرسہ کھلنے کی مقررہ تاریخ پر حاضر نہ ہو سکے تو سزا کے طور پر اس سے 100 یا 200 روپے اضافی لیے جاتے ہیں اور کھانا جاری کیا جاتا ہے۔
3:کھانے کے لیےجو طالب علم مدرسہ کی مقرر کردہ رقم سے کم دیتے ہیں، مثلا مقرر کردہ رقم دو ہزار روپے ہے، اگر وہ 2000 ٹکا سے کم (1000 یا 1200 ٹکا) ادا کرتا ہے اگر وہ امتحان میں ایک مضمون میں فیل ہوتا ہے، تو اسے کھانا جاری کرنے کے لیے اضافی 200 ٹکے ادا کرنے ہوں گے، اور اگر وہ ایک سے زیادہ مضامین میں فیل ہوتا ہے تو اسے 500 روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے، یہ اصول اگلے امتحان تک رہے گا، واضح رہے کہ امتحان میں فیل ہونے پر کوئی اضافی فیس نہیں لی جائے گی، اگر طالب علم مقرر کردہ رقم سے کھانا کھاتا ہو ، مذکورہ قوانین کے متعلق بتائیےآیا یہ شریعت کی نظر میں درست ہیں یا نہیں؟
1:صورتِ مسئولہمقر رہ تاریخ پر فیس کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ ادارے کا فیس کی مد میں اضافہ کرناجائز نہیں ہے یہتعزیر بالمال(مالی جرمانہ ) کے زمرے میں آتا ہے اور تعزیر بالمال شرعاً ناجائز ہے،ہاں اگر مدرسہ کی طرف فیس وصول کرنے کے لئے کوئی تنخواہ دار ملازم موجود نہیں ہے وقتی طور پر فیس وصول کرنےکے لئے مخصوص ایام کے لئے ملازم رکھا جاتا ہے ،پھر وہ مخصوص ایام گزرنے کے بعدلیٹ فیس جمع کرنے کے لئے آدمی رکھنا پڑے تو اضافی رقم لینے کی گنجائش ہوگی اور اگر مدرسہ کے باقاعدہ ملاز م ہے پھر لیٹ فیس وصول کرنا جائز نہیں ہوگا ۔
2:اوراگر کوئی مدرسہ کھلنے کی مقررہ تاریخ پر حاضر نہ ہو سکے تو سزا کے طور پر اس سے اضافی رقم لیناجائز نہیں ہے ، یہتعزیر بالمال(مالی جرمانہ ) کے زمرے میں آتا ہے اور تعزیر بالمال شرعاً ناجائز ہے، لہذا مذکورہ اضافہ شدہ رقم لینا اور اسےادارے کے مصارف میں استعمال کرنا جائز نہیں،بلکہ لینے کی صورت میں واپس کرنا ضروری ہے ۔
3: کھانے کے لیےجو طالب علم مدرسہ کی مقرر کردہ رقم سے کم دیتے ہیں، مثلا مقرر کردہ رقم دو ہزار روپے ہے، اگر وہ 2000 ٹاکا سے کم (1000 یا 1200 ٹاکا) ادا کرتا ہے اگر وہ امتحان میں ایک مضمون میں فیل ہوتا ہے، تو اسے کھانا جاری کرنے کے لیے اضافی 200 ٹاکے ادا کرنے ہوں گے، اور اگر وہ ایک سے زیادہ مضامین میں فیل ہوتا ہے تو اسے 500 روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے، یہ اصول اگلے امتحان تک رہے گا، اور امتحان میں فیل ہونے پر کوئی اضافی فیس نہیں لی جائے گی تو یہ صورت جائز ہے ۔
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"عن أبي حرّة الرُقاشيّ عن عمه قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم: ألا تظلموا ألا لا يحلّ مال امرئ إلاّ بطيب نفس منه."
(مشکوۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ، رقم الحدیث:2946ج:2،ص:889,ط:المکتب الاسلامی)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويكون به و) بالحبس و (بالصفع) على العنق .... (لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى.وفي الرد: (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف ...... (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي. وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."
(کتاب الحدود، باب التعزیر ، ج:4،ص:61۔62،ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ۔والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."
(کتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:61، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101904
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن