ہم ایک ایجو کیشن سسٹم چلارہے ہیں کہ جس کے تحت پری پرائمری / مونٹیسوری سے لیکر کالج لیول کے مختلف تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں، ان تعلیمی اداروں میں میٹرک اسٹریم، کیمبرج اسٹریم اور مدرسہ اسٹریم کے ادارے شامل ہیں، تدریسی و غیر تدریسی عملے میں 80 سے 90 فی صد عملہ خواتین پر مشتمل ہے، ان تعلیمی اداروں کے پرنسپلز میں بھی 80 فی صد خواتین ہیں۔ البتہ ان اداروں کی انتظامی اعتبار سے نگرانی ایک ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کرتا ہے اور ڈائریکٹوریٹ 90 فی صد حضرات پر مشتمل ہے۔
اس حوالے سے انتظامیہ یعنی اسکولز و کالجز کے پرنسپلز ، سیکشن انچار جز اور ایجو کیشن ڈائریکٹوریٹ کے ذمہ داران کو مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ خواتین ٹیچر ز، پری پرائمری کلاسز میں بالخصوص اور دیگر سیکشنز میں بالعموم کہ جہاں مردوں کا عام طور پر آنا جانا بھی نہیں ہے یا بہت کم ہے وہاں چہرے کا پردہ کرتی ہیں، جس سے دوران تدریس چھوٹے بچوں کو بالخصوص اور دیگر کو بالعموم بات کا سمجھانا سمجھنا خاصا مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر مونٹیسوری کے بچوں کے لیے (کہ جہاں بچوں کی عمریں ڈھائی سے پانچ سال تک ہوتی ہیں) نقاب کے ساتھ ٹیچرز سے پڑھنا خاصی دشواری کا باعث ہوتا ہے۔ البتہ مکمل عبا یا لینا، اسکارف لینا اور کسی قسم کا میک اپ نہ کر کے تدریس کرنا نہایت ہی پسندیدہ اور مطلوب ہے۔
درج بالا تفصیل کی روشنی میں آپ سے درج ذیل سوالات کے حوالے سے رہنمائی درکار ہے :-
1: قرآن و سنت، سیرت طیبہ ، آثار صحابہ اور مختلف فقہائے کرام کی آراء میں چہرے کے پردے کے حوالے سے کیا ر ہنمائی ملتی ہے اور کسی حد تک چہرے کی ٹکیا، ہاتھ اور پاؤں کے کھلا رکھنے میں گنجائش و نرمی پائی جاتی ہے؟
2: کسی تعلیمی ادارے میں خواتین کے لیے صرف دوران تدریس کلاس روم میں بالخصوص اور دیگر اداروں میں دوارن ملازمت بالعموم چہرے کا پردہ کرنے کے حوالے سے کسی حد تک گنجائش نرمی کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے ؟
3: کسی بھی ادارے بالخصوص تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو اپنے خواتین اسٹاف کے لیے عبایا اور اسکارف لازمی قرار دینا اور صرف چہرے کی ٹکیا کا پردہ نہ کرنے کے احکامات جاری کرنے کے حوالے سے کسی حد تک جانے کی اجازت ہے؟
قرآن و سنت کی روشنی میں مفصل و مدلل وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
1: واضح رہے کہ عورت کے لیے ”ستر“ اور ”پردہ“ یہ دونوں الگ الگ مستقل شرعی حکم ہیں، عورت کا پورا جسم سوائے تین اعضاء کے ”ستر“ میں داخل ہے اور یہ تین اعضاء (1) چہرہ (2) دونوں ہتھیلیاں (3) اور دونوں قدم ہیں ، ان اعضاء کے علاوہ اگر عورت کے جسم کو کوئی عضو کھلا ہو تو اس کی نماز بھی نہیں ہوگی، خواہ وہ تنہائی میں نماز ادا کررہی ہو۔
اور عورت کے لیے غیر محرم ، اجنبی مردوں سے ”پردہ“ کرنا ضروری اور شریعت کا حکم ہے، اور پردہ کے حکم میں ستر چھپانے کے علاوہ مذکورہ تینوں اعضاء چہرہ، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم بھی شامل ہیں، بلکہ چہرہ تو تمام محاسن کا مجموعہ اور تمام زینتوں کا منبع ہے، پھر پردے کے دو درجے ہیں :
2: اگر كلاس ميں پڑھنے والی صرف لڑکیاں ہوں یا دس سال سے کم عمر بچے ہوں اور کلاس میں نامحرم مردوں کا آنا جانا نہ ہو تو خواتین چہرہ کھلارکھ کر پڑھاسکتی ہیں، لیکن اگر بچے دس سال سے بڑے ہوں یا وہاں نامحرم مردوں کا آنا جانا ہو تو ایسی صورت میں چہرہ کا نقاب بھی ضروری ہوگا، لہذا اگر اسکول انتظامیہ تعلیمی ضرورت کے لیےلڑکیوں یا چھوٹے بچوں کو خواتین ٹیچر سے چہرہ کھلارکھ کر پڑھانا ناگزیر سمجھتی ہو تو وہ اس بات کا اہتمام کرائے کہ کلاس میں مرد حضرات بغیر اطلاع کے داخل نہ ہوں ، اور اگر کبھی کوئی ضروری کام ہو تو پردہ کے پیچھے سے بات کرلے اور اگر کلاس میں جانا ہو تو پیشگی اطلاع دے تاکہ خواتین ٹیچر حجاب کرلیں۔ یہی حکم دیگر اداروں میں ضرورت کے تحت کام کرنے والی خواتین کا بھی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ جہاں مرد حضرات کی آمد و رفت ہو اور ان سے سامنا ہوتا رہتا ہو وہاں چہرہ کا پردہ ضروری ہوگا اور جہاں صرف خواتین ہوں یا چھوٹے بچے ہوں تو وہاں چہرہ کھلا رکھنا منع نہیں ہوگا۔
3: نامحرم مردوں کے سامنے عورت کے چہرہ کا پردہ ایک شرعی حکم ہے، لہذا اگر کسی ادارے میں مرد وخواتین دونوں کام کرتی ہوں اور ان کا آمنا سامنا رہتا ہو تو ادارے کی انتظامیہ خواتین کو چہرہ کے پردہ نہ کرنے احکامات جاری نہیں کرسکتی ہے، یہ پالیسی شرعی حکم کی خلاف ورزی ہوگی جوکہ جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ." ﴿الأحزاب: ٥٩﴾
ترجمہ: ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی ازواجِ مطہرات، اپنی بیٹیوں اور مؤمن عورتوں سے فرمادیجیے کہ اپنے (چہروں) پر پردے لٹکالیا کریں۔‘‘
اسی طرح قرآن مجید کی یہ آیت بھی چہرے کے پردے کے حکم کی طرف متوجہ کرتی ہے:
"وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ." ﴿الأحزاب: ٥٣﴾
ترجمہ: ’’جب ازواج مطہرات سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے پوچھا کریں۔‘‘
خیر القرون میں جب ازواجِ مطہرات اور صحابیات رضوان اللہ علیہن کو چہرے کے پردے کا حکم تھا اور انہوں نے اس کا اہتمام کیا تو اس پُرفتن دور میں بدرجہ اولیٰ مسلمان خواتین کے لیے چہرے کے پردے کا اہتمام کرنا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آیاتِ حجاب کی تفسیر میں چہرہ چھپانے اور صرف ایک یا دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کی اجازت نقل فرمائی ہے۔
نیزاحادیثِ مبارکہ سے بھی عورت کے چہرے کے پردے کا ثبوت ملتاہے، اِحرام کے دوران جب کہ عورت کے لیے چہرے پر کپڑا لگائے رکھنا منع ہوتاہے، اس حال میں بھی صحابیات رضی اللہ عنہن اجنبی مردوں سے چہرہ چھپایا کرتی تھیں،ملاحظہ ہو:
"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم محرمات فإذا جاوزوا بنا سدلت إحدانا جلبابها من رأسها على وجهها فإذا جاوزونا كشفناه."
(مشکاۃ المصابیح، كتاب المناسك، باب مايحتجبه المحرم، الفصل الثاني، 2/ 823، ط:المكتب الاسلامي بيروت)
ترجمہ:" اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہم (سفر کے دوران) حالت احرام میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے (اور احرام کی وجہ سے ہمارے منہ کھلے ہوئے تھے) اور ہمارے قریب سے قافلے گزرتے رہے، چنانچہ جب کوئی قافلہ ہمارے سامنے سے گزرتا تو ہم میں سے ہر عورت ( پردہ کی غرض سے ) اپنی چادر اپنے سر پر تان کر اپنے منہ پر (اس طرح) ڈال لیتی تھی کہ وہ چادر اس کے منہ کو نہ لگتی) اور جب قافلہ ہمارے سامنے سے گزر جا تا تو ہم اپنا منہ کھول دیتے تھے۔"(مظاہر حق)
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قافلہ سے بچھڑ جانے والے قصہ میں ان کا یہ فرمانا : قافلے سے پیچھے آنے والے صحابی کے ’’انا للہ‘‘ پڑھنے پر میں فوراً نیند سے بیدار ہوگئی اور اپنا چہرہ چھپالیا، یہ بھی اس بات کی دلیل ہےکہ عورت کے چہرے کا پردہ فرض ہے۔ملاحظه هو:
"عن عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، حين قال لها أهل الإفك... فبينا أنا جالسة في منزلي غلبتني عيني فنمت، وكان صفوان بن المعطل السلمي ثم الذكواني من وراء الجيش، فأصبح عند منزلي، فرأى سواد إنسان نائم فعرفني حين رآني، وكان رآني قبل الحجاب، فاستيقظت باسترجاعه حين عرفني، فخمرت وجهي بجلبابي، والله ما تكلمنا بكلمة، ولا سمعت منه كلمة غير استرجاعه، وهوى حتى أناخ راحلته، فوطئ على يدها، فقمت إليها فركبتها، فانطلق يقود بي الراحلة حتى أتينا الجيش موغرين في نحر الظهيرة وهم نزول...الخ."
(صحيح البخاري ،باب: حديث الإفك، 4/ 1517، ط : دار ابن كثير)
اسی طرح ایک حدیث مبارک میں ہے :
"عن عبد الله : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال المرأة عورة فإذا خرجت استشرفها الشيطان".
(باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات، 3 / 468،ط: شركة مطبعة مصطفي الباني )
”ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے(یعنی اس کو مسلمانوں میں برائی پھیلانے کا ذریعہ بناتا ہے۔“
أحكام القرآن للجصاص ميں هے:
"عن أم سلمة قالت: "لما نزلت هذه الآية: {يدنين عليهن من جلابيبهن} خرج نساء من الأنصار كأن على رءوسهن الغربان من أكسية سود يلبسنها".
قال أبو بكر: في هذه الآية دلالة على أن المرأة الشابة مأمورة بستر وجهها عن الأجنبيين وإظهار الستر والعفاف عند الخروج لئلا يطمع أهل الريب فيهن."
(باب ذكر حجاب النساء، 3 / 486، ط: دارالكتب العلمية)
روح المعانی میں ہے:
"والجلابیب جمع جلباب: وہو علی ماروی عن ابن عباس الذي یسترمن فوق الی أسفل.
واختلف في كيفية هذا التستر فأخرج ابن جرير وابن المنذر وغيرهما عن محمد بن سيرين قال: سألت عبيدة السلماني عن هذه الآية يدنين عليهن من جلابيبهن فرفع ملحفة كانت عليه فتقنع بها وغطى رأسه كله حتى بلغ الحاجبين وغطى وجهه وأخرج عينه اليسرى من شق وجهه الأيسر، وقال السدي: تغطي إحدى عينيها وجبهتها والشق الآخر إلا العين، وقال ابن عباس وقتادة: تلوي الجلباب فوق الجبين وتشده ثم تعطفه على الأنف وإن ظهرت عيناها لكن تستر الصدر ومعظم الوجه، وفي رواية أخرى عن الحبر رواها ابن جرير، وابن أبي حاتم وابن مردويه تغطي وجهها من فوق رأسها بالجلباب وتبدي عينا واحدة."
(سورة الاحزاب،ج11،ص264،ط؛ دارالکتب العلمیة، بیروت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603100286
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن