بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تعلیق طلاق کی ایک صورت کا حکم


سوال

 دو آدمیوں کا کسی بات پر جھگڑا ہوا اور اس دوران ایک نے دوسرے سے کہا کہ" اگر تو مامدگٹ سے(جگہ کا نام) اس طرف آیا اور میں نے نہیں مارا اور تو صحیح سالم بچ کر واپس چلا گیا تو میری بیوی کو طلاق ہوگی اور میری بیوی میری بہن ہوگی اور میں بہن کے چارپائی پر چڑھوں گا "،بعد میں دونوں کا صلح ہوا اور وہ بندہ اس علاقے سے گزر کر اس کے پاس گیا اور کچھ نہ کہا، علماء سے پوچھنے پر ایک عالم نے کہا کہ اس کی  بیوی تین طلاق کے ساتھ مغلظہ ہوگئی  ہے اور دوسرے نے کہا کہ یہ یمین منعقدہ ہے اور کفارہ دینا پڑے گا -براہ کرم اس میں آپ حضرات کی راہ بری کی ضرورت ہے ۔

جواب

صورت ِ مسئوله ميں    اگر  مذكوره   آدمي نے  صرف اتنی بات کہی ہے كه " اگر تو مامدگٹ سے(جگہ کا نام) اس طرف آیا اور میں نے نہیں مارا اور تو صحیح سالم بچ کر واپس چلا گیا تو میری بیوی کو طلاق ہوگی"اور شرط بھی پائی  گئی کہ وہ آدمی اس علاقہ میں آیا اور اس نے نہیں مارا تو اس سے اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ،عدت کے دوران رجوع کا حق حاصل ہوگا ۔اگر عدت کے دوران اس نے قولا ً یا فعلاً رجوع کرلیا  تو  دونوں  کا نکاح برقرار رہے گا اور ااس کے بعد شوہرکو دو طلاقوں  کا  اختیار  ہوگا  اور اگر عدت کے دوران رجوع نہیں کیا تو  عدت گزرتے ہی دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا ،اس کے بعد دونوں کابغیر نکاح کئے ساتھ رہنا جائز نہیں ہوگا ۔

اس کے بعد جو دو جملے کہے "  اور میری بیوی میری بہن ہوگی  اور میں بہن کے  چارپائی پر چڑھوں گا " چوں کہ طلاق کے الفاظ نہیں ہے ؛اس لیے اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، تاہم مذکورہ الفاظ نامناسب ہیں، اس طرح کے الفاظ سے اجتناب  کیا جائے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق بالشرط،ج:1،ص:420،دارالفکر)

وفيها أيضا:

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق ،الباب السادس فی الرجعۃ،ج:1،ص:470،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وإن نوى بأنت علي مثل أمي) ، أو كأمي، وكذا لو حذف علي خانية (برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته) ووقع ما نواه لأنه كناية (وإلا) ينو شيئا، أو حذف الكاف (لغا) وتعين الأدنى أي البر، يعني الكرامة. ويكره قوله أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه.

(قوله: ويكره إلخ) جزم بالكراهة تبعا للبحر والنهر والذي في الفتح: وفي أنت أمي لا يكون مظاهرا، وينبغي أن يكون مكروها، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته يا أخية مكروه. وفيه حديث رواه أبو داود «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - سمع رجلا يقول لامرأته يا أخية فكره ذلك ونهى عنه» ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقال هو ظهار لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ " يا أخية " استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليس ظهارا حيث لم يبين فيه حكما سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهارا من التصريح بأداة التشبيه شرعا، ومثله أن يقول لها يا بنتي، أو يا أختي ونحوه. اهـ"

(کتاب الطلاق،باب الظہار،ج:3،ص:470،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"لو قال: إن ‌وطئتك وطئت أمي فلا شيء عليه كذا في غاية السروجي."

(کتاب الطلاق ،الباب التاسع فی الظہار،ج:1،ص:507،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں