بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعلیق طلاق کی ایک صورت


سوال

ایک شخص نے اکیلے میں یہ الفاظ بولے (اتنی آواز تھی کہ اس نے خود الفاظ سن لیے) ’’اگر میں ایک  ماہ سے پہلے سگریٹ، حقہ یا سگار پیوں تو میری بیوی کو طلاق، سوائے اکراہِ شرعی کے یا بھولے چوکے سے‘‘  اور ظنِ غالب ہے کہ یہ الفاظ بھی کہے تھے کہ ’’یا سوائے اس کے کہ مجھے کوئی دے‘‘،  اور ان الفاظ کی وجہ یہ تھی کہ جب کبھی دوستوں کے ساتھ بیٹھوں گا تو ہو سکتا ہے صبر نہ کرسکوں۔ پھر وہ کچھ دن سے زیادہ صبر نہ کرسکا، اس نے کچھ دن بعد یہ سوچ کر کہ ظن غالب ہے کہ اگر کوئی دے تو میں پی سکتا ہوں، سگریٹ منگوائی اور بیوی کو کہا کہ میں نے یہ قسم کھا لی ہے،(طلاق کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی سگریٹ مانگی) بیوی نے اس پر ترس کھا کے ڈبی لی اور ایک سگریٹ نکال کر دے دی،اس نے پی لی،اسی طرح اس نےایک اور پھر دوسری ڈبی بھی پی لی، جب تیسری ڈبی آئی تو بیوی نے لے کر غصے سے پھینک دی اور کہا کہ یہ لو پیو، اس نے قسم ٹوٹنے کے خیال سے نیز بیوی کی بدتمیزی پر غصے کی وجہ سے نہ اٹھائی اور نہ سگریٹ پی اور غصے میں اٹھ کر باہر چلا گیا، اس کے بچے گئے اور منا کر لے آئے، کچھ وقت گزرا تو بیوی کے سگریٹ نہ دینے پر بے چینی اور غصہ بڑھتا گیا، بیوی نے دیکھا تو اس کی طرف ڈبی پھینکی اور کہا کہ میں دے رہی ہوں لے لو، اس نے ڈبی غصے میں مروڑ کر پھینک دی، لیکن کچھ دیر بعد یہ سوچ کر کہ میں نے قسم میں مانگنے یا نہ مانگنے کی قید تو نہیں لگائی تھی، بچی کو کہا کہ ’’لاؤ سگریٹ‘‘ اور پھر بچی سے لے کر دو تین سگریٹ پی لی۔ براہ کرم رہنمائی فرمادیجیے کہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے ان الفاظ سے قسم کھائی کہ ’’اگر میں ایک ماہ سے پہلے سگریٹ، حقہ یا سگار پیوں تو میری بیوی کو طلاق، سوائے اکراہِ شرعی کے یا بھولے چوکے سے یا سوائے اس کے کہ مجھے کوئی دے‘‘، تو ان الفاظ کے بعد اس شخص کے مانگے بغیر بیوی کے سگریٹ دینے سے اور اس شخص کے پینے سے تو بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم اس کے بعد جب اس شخص نے اپنی بیٹی سے خود سگریٹ مانگ کر پی، تو اس سے بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے؛ اس لیے کہ یہ الفاظ ’’یا سوائے اس کے کہ مجھے کوئی دے‘‘ ان سے مراد عرف میں یہ ہوتا ہے کہ بغیر مانگے کوئی دے دے، جب کہ اس شخص نے یہاں خود اپنی بیٹی سے مانگ کر سگریٹ پی ہے، لہٰذا بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، شوہر کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے، بیوی اگر حاملہ نہ ہو تو عدت کی مدت تین ماہ واریاں ہے اور اگر حاملہ ہو تو بچے کی پیدائش تک عدت ہے۔ اور اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے کے بعد بیوی بائنہ ہوجائے گی یعنی نکاح بالکل ختم ہوجائے گا اور رجوع جائز نہیں ہوگا۔ البتہ فریقین دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی اور نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرسکتے ہیں۔بہر صورت رجوع یا نئے نکاح کے بعد آئندہ کے لیے شوہر کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا۔

و في الدر المختار و حاشية ابن عابدين:

’’اليمين في الدخول و الخروج و السكنى و الإتيان و الركوب و غير ذلك: الأصل أن الأيمان مبنية عند الشافعي على الحقيقة اللغوية، و عند مالك على الاستعمال القرآني، و عند أحمد على النية، و عندنا على العرف ما لم ينو ما يحتمله اللفظ.

(قوله: و عندنا على العرف) لأن المتكلم إنما يتكلم بالكلام العرفي، أعني الألفاظ التي يراد بها معانيها التي وضعت لها في العرف كما أن العربي حال كونه بين أهل اللغة إنما يتكلم بالحقائق اللغوية فوجب صرف ألفاظ المتكلم إلى ما عهد أنه المراد بها، فتح.‘‘ (رد المحتار، 3/ 743، ط:سعيد)

و في الهداية في شرح بداية المبتدي:

’’و إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، لقوله تعالى: {فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ} [البقرة:231].‘‘(2 /254، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201200796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں