بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الاول 1446ھ 08 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر تو اپنی والدہ یا گھر والوں سے ملی یا کسی کے ذریعے بھی بات کی تو تجھے طلاق ہے، کہنے کا حکم


سوال

میاں بیوی کے  درمیان کچھ مسائل تھے ، جس کی بناء پر شوہر نے بیوی سے کہا کہ " اگر تو اپنی والدہ یا گھر والوں سے ملی تو تجھے طلاق ہے اور اگر کسی کے ذریعے بھی بات کی تب بھی تجھے طلاق ہے "  اور  اتفاقًا لڑکی کی والدہ اس کے گھر پہنچ گئی ، تو بیوی نے شوہر کو فون کیا اور بتایا ،والدہ آئی ہے، کیا کروں ؟تو بیوی کے بار بار بولنے پر شوہر نے والدہ سے ملنے کی اجازت دے دی، پھر بیوی اپنی والدہ اور بھائی سے ملی، تو کیا اس سے طلاق واقع ہو گئی ہے؟ اگر ہو گئی ہے تو کتنی ہو گئیں؟ اور آگے کی اب کیا صورت ہو گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں شوہر نے  جب بیوی کو یہ الفاظ  کہے کہ  " اگر تو اپنی والدہ یا گھر والوں سے ملی تو تجھے طلاق ہے اور اگر کسی کے ذریعے بھی بات کی تب بھی تجھے طلاق ہے " اور اس کے بعد جب بیوی والدہ اور بھائی سے ملی تو ایسی صورت میں شرط پائی جانے کی وجہ سے بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہو چکی ہے، ( اگرچہ شوہر کی اجازت سے ملی ہو )  البتہ  عدت  ( مکمل تین ماہواریاں اگر حاملہ نہ ہو، اور اگر حاملہ ہوتو بچے کی پیدائش تک )  میں شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے، رجوع کی صورت میں نکاح برقرار رہے گا،  اور اگر عدت کے دوران رجوع نہیں کیا گیا تو عدت ختم ہونے سے نکاح ٹوٹ جائے گا، اس کے بعد ساتھ رہنے کے لیے دوبارہ شرعی طریقے سے نکاح کرنا ضروری ہو گا،اس کے بعد مذکورہ الفاظ " اگر تو اپنی والدہ یا گھر والوں سے ملی تو تجھے طلاق ہے " کی وجہ سے دوبارہ کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی، البتہ اس کے بعد والا جملہ"اور اگر کسی کے ذریعے بھی بات کی تب بھی تجھے طلاق ہے " چوں کہ باقی ہے  اس لیے  اگر بیوی عدت کے دوران یا تجدیدِ نکاح کے بعد کسی کے ذریعے سے والدہ یا گھر والوں سے بات کرے گی تو اس جملے کی وجہ سے دوسری طلاق بھی واقع ہو جائے گی،البتہ اس کے بعد بھی شوہر کو رجوع کا حق ہو گا،اور رجوع کی صورت میں نکاح برقرار رہے گا،البتہ آئندہ کے لیے شوہر کے پاس بقیہ ایک طلاق کا حق ہی ہو گا،اور بہت احتیاط سے زندگی گزارنی ہو گی، اگر ایک بار بھی مزید طلاق دے دی تو اس سے بعد ساتھ رہنا قطعاً جائز نہیں ہو گا،  (اور اگر کسی ذریعے کے بغیر بیوی والدہ یا گھر والوں سے  بات کرے گی تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی  ، اسی طرح  اگر پہلی طلاق کے بعد شوہر رجوع نہیں کرتا ، اور عدت ختم ہونے سے نکاح ختم ہو جانے کے بعد اگر بیوی کسی کے ذریعے سے والدیا گھر والوں سے بات کر لیتی ہے، تو ایسی صورت میں نکاح قائم نہ ہونے کی وجہ سے بیوی پر  اس دوسرے جملے کی وجہ سے دوسری طلاق واقع نہیں ہو گی، اور تعلیق بھی ختم ہو جائے گی، اس کے بعد اگر شوہر تجدیدِ نکاح کرتا ہے تو ایسی صورت میں آئندہ کے لیے شوہر کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا، اور مذکورہ دونوں جملوں کی وجہ سے بیوی پر آئندہ مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق باشرط،ج:1،ص:425،ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے :

"و اذا تمت حنث فلا يتصور الحنث ثانيا الا بيمين اخري لانها غير مقتضية للعموم و التكرار لغة."

( كتاب الطلاق، باب التعليق،ج:3،ص:352،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌وإذا ‌أضافه ‌إلى ‌الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا."

(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ١/ ٤٢٠، ط: رشيدية)

و في الهداية في شرح بداية المبتدي:

"و إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، لقوله تعالى: {فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ} [البقرة:231]."

(2 /254، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں