بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تعلیمی ادارے کا اپنے اساتذہ، طلبہ اور عملہ کے کارڈ بنوانے کے لیے تصویربنوانا


سوال

تصویر کشی چاہے ڈیجیٹل ہو یا دوسری ہو ، بلاضرورت شدیدہ حرام ہے تو ضرورت شدیدہ کا معیار کس طرح طے کیا جائے ؟ کیا دینی تعلیم کے اداروں کا اپنے اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز کے سالانہ کارڈ کے لیے تصویر بنوانا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ تصویر بنانا ازروئےشرع بہرصورت ناجائز اور حرام ہے،خواہ ضرورت کی وجہ سے ہو یا بلاضرورت ہو،بعض فتاوی میں بلا ضرورت شدیدہ حرام ہونے  کی جو قید لگائی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر شدید ضرورت ہو  کہ  اس سے بچنے کی کوئی صورت  ممکن نہ ہو،مثلًاشناختی کارڈ ، پاسپورٹ،ویزا وغیرہ بنوانے کے  لیے تصویر بنوانا،  تو ایسے مواقع پر  حرام ہونے کے باوجود تصویر بنوانے کی  گنجائش ہے،  یعنی اس گنجائش کی وجہ سے تصویر سازی کی حرمت اور گناہ ختم نہیں ہوتا،بلکہ تصویرکشی کا گناہ قانون بنانے والوں پر ہوگا ،تصویر کھنچوانے والاجب کہ تصویر گناہ سمجھ کر کھنچوائےتواس پرمذکورہ مجبوری میں گناہ نہیں ہوگا۔

نیز صورت مسئولہ میں تعلیمی اداروں کا اپنے اساتذہ،طلبہ اور دیگر عملہ سے کارڈ وغیرہ بنانے کے لیے تصویر بنوانا شرعا ناجائز ہے،اگر کوئی  ادارہ  قانون بناتا ہے تو وہ  ادارہ اس قانون بنانے پر گناہ گار ہوگا،لیکن  اگر ادارہ حکومتی قانون کی وجہ سے تصویر بنوانے پر مجبور ہو تو اس صورت میں  ادارے کے ذمہ داران  گناہ گار نہیں  ہوں گے،  بلکہ قانون بنانے والے گناہ گار ہوں گے ۔

فتاوٰی شامی میں  ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیها:ج:1،ص:647، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

" وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى."

(فرع لابأس باتخاذ المسبحة لغیر ریاء: ج:1، ص:650، ط: سعید)

شرح كتاب السير الكبير میں ہے:

"وإن تحققت الحاجة له إلى استعمال السلاح الذي فيه تمثال فلا بأس باستعماله؛ لأن مواضع الضرورة مستثناة من الحرمة كما في تناول الميتة فعرفنا أن لا رخصة فيه في غير موضع الضرورة".

(باب ما يكره في دار الحرب وما لا يكره، ج:1، ص:467، ط:دارالکتب العلمیة)

کفایت المفتی میں ہے:

"تصویر کھینچنا اور کھنچوانا منع ہے ،کھنچوانا اگر کسی ضرورت پر مبنی ہو مثلاً پاسپورٹ کے لیے تو مباح ہے"۔

 (کتاب الحظروالاباحت،ج:9، ص:237، ط:دارالاشاعت)

وفیہ ایضاً:

"قلم یا کسی دوسرے طریقے سے تصویر بنانایا بنوانا ہرگز جائز نہیں،لیکن سخت ضرورت یا قانونی مجبوری کے وقت جائز ہوگا؛کیوں کہ شریعت کا ایک مسلمہ قاعدہ ہے الضرورات تبیح المحظورات"۔

(کتاب الحظر والاباحت، ج:9 ، ص:243، ط:دا راشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں