بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تعلیم و تربیت کی خاطر بچوں کو زنجیرسے باندھنے کا حکم


سوال

مدرسے  میں بچوں کو چھٹی کرنے کی وجہ سے یا سبق،منزل یاد نہ ہونے کی وجہ سے یا مدرسے سے بھاگ جانے کی وجہ سے زنجیر سے باندھنے کا شرعًا اور اخلاقًا  کیا حکم ہے؟

جواب

بچوں کی تعلیم وتربیت میں نرمی اور محبت کا انداز اختیار کرنا چاہیے،  بے جا مار پیٹ  یا زنجیر وغیرہ سے باندھنا شرعًا درست نہیں ہے، نیز اس  سے بچے  ضدی اور ڈھیٹ ہوجاتے ہیں، پھر ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا،   اس کے مقابلے میں نرمی اور محبت  اور بسا اوقات حوصلہ افزا ئی  کے لیےانعام دینےکا طریقہ زیادہ سود مند ہے، تعلیم و تربیت میں وہی  اُسلوب اختیار کرنا چاہیے جو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا  طریقہ رہا ہے، ان قدسی نفوس نے بہت ہی محبت اور ہمدردی سے دین کو پھیلایا ہے اور بچوں اور بڑوں کی تربیت فرمائی ہے۔ البتہ اگر  ماتحت کی تربیت کے لیے  سختی کی ضرورت  پیش آئے تو قرآن مجید و احادیثِ مبارکہ سے تنبیہ کی اجازت بھی  ثابت ہے، لیکن  یہ تب ہی ہے جب اس کی شدید ضرورت ہو، اور وہ بھی  تدریجاً سزا  دی جائے،  مثلاً: (1) ملامت کرنا ، (2) حکمت سے ڈانٹنا، (3) نرمی سےکان کھینچنا،(4)ہلکے  ہاتھ سے مارنا  وغیرہ۔

باقی  چھٹی کرنے کی وجہ سے یا سبق ، منزل یاد نہ ہونے کی وجہ سے یا بھاگ جانے کی وجہ سے  بچوں کو زنجیر وغیرہ سے باندھنے سے احتراز کرنا چاہیے، اگر   تعلیم وتربیت کی غرض سے  کبھی سزا دینے کی ضرورت   پڑ جائے تو اس کے متعلق تفصیلی جواب ہماری ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں:

حفظ کرانے کی خاطر بچوں کو مارنا، ان کو زنجیر سے باندھنا

نیز یہ غور طلب امر ہے کہ بچےمدرسہ کی بجائےاسکول کو کیوں ترجیح دیتے ہیں،  ایسا رویہ و معاملہ کریں کہ بچے اسکول سے مدرسہ آئیں۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں