ایک مسجد میں تبلیغی احباب فضائل اعمال کی تعلیم کر رہے تھے اور ایک بندہ مسجد کے دوسرے کونے میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا تو ایک تبلیغی اس کے پاس آکر کہتا ہے کہ اجتماعی عمل سے شیطان نے تجھے الگ کردیا ہے، کیا اس صورت میں قرآن کی توہین ہوئی یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں تبلیغی جماعت کے ساتھی کا قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے شخص سے یہ کہنا کہ’’ اجتماعی عمل سے شیطان نے تجھے الگ کردیا ہے‘‘ ،انتہائی غلط اور نامناسب ہے ،اس ساتھی کو چاہیے کہ اپنے اس جملہ پر اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں ،البتہ اس جملہ میں قرآن مجید کی توہین نہیں ہے ۔شیطان کو ہر قسم کے نیک عمل سے نفرت ہے خواہ وہ نیک عمل اجتماعی طور پر کیا جائے یا انفرادی طور پر کیا جائے۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ عام حالات میں اگر کسی جگہ تعلیم یا وعظ ونصیحت کاحلقہ لگا ہوا ہو اور کوئی شخص اس دوران الگ جگہ پر بیٹھ کر تلاوت، ذکر و اذکار یا انفرادی نوافل میں مشغول ہو تو اسے زبردستی تعلیم کے حلقے میں بٹھانا درست نہیں ہے؛اس لیے کہ ہر آدمی جماعت کے اجتماعی اعمال میں جڑنے کا مکلف نہیں ہے، دین کے ہر حکم میں اعتدال ہے، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اجتماعی عمل اور امت کی فکر اور ناواقفوں کو کلمہ اور دین کے مسائل سکھانا انفرادی عمل سے کہیں بڑھ کر اجر و ثواب رکھتاہے، لہذا جو آدمی جماعت میں نکل کر وقت لگا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ جماعت کے اجتماعی اعمال کو اپنے انفرادی اعمال پر ترجیح دے ،لیکن انفرادی نیک اعمال اور نوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، ہر عمل اور بات کا ایک موقع ہوتاہے، وقت کے تقاضے اور حکمت و تدبیر کو ملحوظ رکھنا بھی دعوت و اِصلاح کی بنیادی شرائط میں سے ہے،اس کا اہتمام کرنا چاہیے ۔
وفي الفتاوى الهندية :
"إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط."
(كتاب السير,الباب العاشر في البغاة,2/ 283ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404101573
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن