بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طالبِ علم سے لی جانے والی فیس کی رقم کو ادارے کے مختلف اخراجات میں خرچ کرنے کا حکم


سوال

1۔ ایک دینی ادارے کے تحت درس نظامی،حفظ،مکتب اوراسکول کے شعبہ جات ہیں،ان تمام شعبوں کے مختلف اخراجات ہیں ،ادارے کی طرف سے تمام شعبوں کے لیے الگ الگ فیس بھی مقرر ہے ،البتہ جن بچوں کے سرپرست فیس اداکرنے کی استطاعت نہیں رکھتےتو ادارہ ایسے بچوں کو فیس میں رعایت دے دیتاہے یا بعض اوقات مکمل فیس معاف کردی جاتی ہے، ان مستحق بچوں کے لیے ادارہ اسپانسر کا انتظام کرتاہے،اس سلسلے میں ادارے کی طرف سے لوگوں کی اطلاع کے لیے مختلف مواقع پر اعلانات وغیرہ لگوانے کی ترتیب ہوتی ہے، ادارے کی انتظامیہ یہ چاہتا ہے کہ ادارے کے تمام شعبہ جات کے اخراجات کو تمام بچوں پر تقسیم کرے اوراوسطاً ایک بچے پرآنے والے ماہانہ اورسالانہ اخراجات اپنے اعلان پر درج کردے( مثلاً یہ عبارت لکھ دی جائے:"ایک بچہ/بچی کی تعلیم کا ماہانہ خرچ تقریباً2000روپےاورسالانہ خرچ24000روپے ہے)اورپھر جو رقم آئے اسے انتظامیہ اپنی صواب دید پر جس شعبے میں ضرورت ہووہاں خرچ کرے،آپ سے اس معاملے میں راہ نمائی کی درخواست ہے۔

2۔ دوسراسوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ادارے کے ساتھ ایک بچے کی ماہانہ فیس کی رقم کا تعاون کرے یا ایک بچے کی سالانہ فیس کی رقم کا ادارے کے ساتھ تعاون کرے تو کیا انتظامیہ اس رقم کو ایک سے زائد بچوں کے لیے استعمال کرسکتا ہے؟

واضح رہے کہ ادارے نے اپنے اعلانات پریہ عبارت لکھوارکھی ہے:" بسااوقات ایک طالب علم کے والد/سرپرست مکمل خرچہ نہیں دے سکتے تو آپ کادیاہوا ایک اسپانسر2یا 3 بچوں کا بھی سہارابن سکتاہے"۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بالاادارہ اپنے اعلانات پر جوعبارت لکھواتا ہے کہ:" بسااوقات ایک طالب علم کے والد/سرپرست مکمل خرچہ نہیں دے سکتے تو آپ کادیاہوا ایک اسپانسر2یا 3 بچوں کا بھی سہارابن سکتاہے"اس کی بنیاد پر ادارے کی انتظامیہ کو یہ رقم کو ادارے کے دیگر شعبہ جات کی مد میں خرچ کرنے شرعاً حق حاصل نہیں ہے،کیوں کہ مذکورہ عبارت سے یہ واضح ہے کہ رقم دہندہ کی رقم تعلیمی  فیس ادانہ کرنے والے بچوں  کی فیس کی مد میں خرچ کی جائیگی،لہذا مذکورہ رقم بچوں کی تعلیمی فیس کے علاوہ  کسی اور مد میں  خرچ کرنا درست نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."

(ج:۴،ص:۴۴۵،ط:سعید)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وهنا ‌الوكيل ‌إنما ‌يستفيد ‌التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره."

(كتاب الزكاة، 269/2، ط: سعيد)

فتاوٰی تاتارخانیہ میں ہے:

"سئل عمر الحافظ: رجل دفع إلی الآخر مالاً، فقال له: هٰذا زکاة مالي فادفعها إلی فلان، فدفعها الوکیل إلی الآخر، هل یضمن؟ فقال: نعم، وله التعیین."

(كتاب الزكاة، الفصل التاسع في المسائل المتعلقة، بمعطي الزكاة، 228/3، ط: رشيديه)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144408100115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں