بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے خرید و فروخت کرنے کا حکم


سوال

ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  ٹیلی فون  اور انٹرنیٹ کے ذریعہ  خرید و فروخت  میں اگر خریدوفروخت کی  تمام  شرائط  کی رعایت رکھی جاتی ہو، تو اس کے ذریعے خرید و فروخت جائز ہوگی، مثلاً: مبیع(بیچی جانے والی چیز) اور ثمن (قیمت) کی مکمل تفصیلات بتائی جائیں، جس سے ہر قسم کی جہالت مرتفع ہوجائے، اور کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو وغیرہ ۔

 چنانچہ   اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور خریدنے والا فون کرکے یا موبائل کے ایپ کے ذریعے آرڈر دے کر  بائع  مشتری کو اس مال کی   تصویر دکھلا کر اس  پر فروخت کر دے اور مشتری سے قیمت وصول کرلی جائے تو یہ بیع درست ہوگی۔ 

باقی  سائل کس قسم کی آن لائن خرید و فروخت   کرنا چاہتا ہے ، اس کی تفصیل لکھ کر بھیج دے،ان شاء اللہ اس کے شرعی حکم کے متعلق راہ نمائی کر دی جائے گی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  من ابتاع طعاماً فلايبعه حتى يستوفيه ، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله."

(کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ج:3، ص:1159، ط:دار إحیاءالتراث العربي)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم."

(کتاب البیوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ج:5ص:138،ط:دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائعمیں ہے:

"(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة.

فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولا جهالة لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد؛ لأن الجهالة إذا كانت مفضية إلى المنازعة كانت مانعة من التسليم والتسلم فلا يحصل مقصود البيع، وإذا لم تكن مفضية إلى المنازعة لا تمنع من ذلك؛ فيحصل المقصود......(أما) جهالة المبيع: فلأن العقد في أحدهما بات وفي الآخر خيار ولم يعين أحدهما من الآخر فكان المبيع مجهولا، وأما جهالة الثمن: فلأنه إذا لم يسم لكل واحد منهما ثمنا فلا يعرف ذلك إلا بالحزر والظن فكان ‌الثمن ‌مجهولا والمبيع مجهولا وجهالة أحدهما تمنع صحة البيع فجهالتهما أولى."

(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع،ج:5، ص:157،   ط:دارا لكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"وأما حكم البيع .. فهو ثبوت الملك للمشتري في المبيع، وللبائع في الثمن للحال."

(کتاب البیوع، فصل فی حکم البیع، ج:5، ص:233، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) يصح ... (بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه ... والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز ... وفي المواهب: وفسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما ... (قوله: ونفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان والفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، وكثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، فصل في التصرف في المبیع الخ،ج:5، 147، 148،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100676

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں