بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے بیر علی پر تلبیہ کہنا یاد نہ رہا اور میقات سے گزرنے کے متصل بعد تلبیہ کہا تو کیا دم واجب ہوگا؟


سوال

میں نے مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے دل میں عمرہ ادا کرنے کی پختہ نیت کی ہوئی تھی، میقات والی مسجد میں جب گاڑی رکی تو میں نے غسل کرکے احرام باندھا اور احرام کی نیت سے دو رکعت نفل ادا کیے، اور گاڑی میں سوار ہو گیا، تلبیہ کہنا یاد نہ رہا، گاڑی میں بیٹھ کر تلبیہ یاد آیا تو تب پڑھ لیا، گاڑی چلے ہوئے 4-5 منٹ ہو چکے تھے۔

کیا اس پر کوئی دم یا صدقہ واجب ہے؟ اور اگر دم واجب ہے تو کیا اس کی بجائے تین روزے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہوں؟ کیوں کہ میں نے اختیاری طور پر کچھ نہیں کیا، بس شیطان نے اس وقت تلبیہ کہنا بھلا دیا تھا۔

جواب

صورت مسئولہ میں مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے’’ میقات والی مسجد‘‘ (ذوالحلیفہ/بیرعلی) پر آپ نے احرام باندھا اور عمرہ کی نیت کرلی، لیکن زبان سے تلبیہ کہنا بھول گئے جس کی وجہ سے آپ پر دم واجب ہوگیا تھا،لیکن گاڑی چلنے کے چار پانچ منٹ بعد جب آپ نے تلبیہ پڑھ لیا تو گویا اگلی میقات یعنی جحفہ/ رابغ (جس کی محاذات اسی راستے میں ہے) سے پہلے پہلے آپ نے زبان سے تلبیہ پڑھ لیا تھا اس وجہ سے دم بھی ساقط ہوگیا، لہذا آپ پر کوئی دم واجب نہیں ہے۔ 

ارشاد الساری میں ہے: 

"إن النیة والتلبیة نفس الإحرام وحقیقته، لا شرطه، بل الإحرام شرط للنسك، والنية من فرائض الإحرام، إذ لاينعقد بدونها إجماعا وإن لبى، وكذا التلبية أو مايقوم مقامها من فرائض الإحرام عند أصحابنا، لأنهم صرحوا أنه لا يدخل في الإحرام بمجرد النية، بل لا بد من التلبية أو ما يقوم مقامها، حتى لو نوى ولم يلب لا يصير محرما، وكذا لو لبى ولم ينو، وعن أبي يوسف أنه يصير محرما بمجرد النية، وهومذهب الشافعي ومن تبعه.

وعلى المذهب بأن يكون شارعا عند وجودهما هل يصير محرما بالنية والتلبية جميعا أو بأحدهما بشرط وجود الآخر؟ فالمعتمد ما ذكره حسام الدين الشهيد أنه يصير شارعا بالنية، لكن عند التلبية لا بالتلبية، كما يصير شارعا في الصلاة بالنية لكن عند التكبير لا بالتكبير."

(باب الإحرام،ص: 125 ،ط : امداديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقالوا ولو مر بميقاتين فإحرامه من الأبعد أفضل ولو أخره إلى الثاني لا شيء عليه على المذهب وعبارة اللباب سقط عنه الدم.

(قوله: ولو مر بميقاتين) كالمدني يمر بذي الحليفة ثم بالجحفة فإحرامه من الأبعد أفضل أي الأبعد عن مكة، وهو ذو الحليفة لكن ذكر في شرح اللباب عن ابن أمير حاج أن الأفضل تأخير الإحرام، ثم وفق بينهما بأن أفضلية الأول لما فيه من الخروج عن الخلاف وسرعة المسارعة إلى الطاعة، والثاني لما فيه من الأمن من قلة الوقوع في المحظورات لفساد الزمان بكثرة العصيان."

(كتاب الحج، مطلب في المواقيت، 2/ 476، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505100512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں