بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلبہ کی تربیت اور نگرانی کے لیے مدرسہ میں باجماعت نماز کا اہتمام کرنا


سوال

 ہمارے  مدرسے کے دارالاقامہ میں مسجد نہیں ہے جس میں نماز ادا کر سکیں،  البتہ پچاس فٹ کی دوری پر مسجد واقع ہے،  مگر طلبہ کی تربیت اور نگرانی کے پیشِ  نظر ہم سب اذان اور تکبیر کے ساتھ پنج وقتہ نماز مدرسے میں ادا کرتے ہیں سوائے نمازِ  جمعہ کے،  صورتِ  مسئولہ یہ ہے کہ مدرسے میں ہونے والی جماعت کاثواب مسجد کی جماعت کےثواب کے برابر ہے یا نہیں؟

جواب

اگر مسجد و مدرسہ بالکل متصل ہے تو مسجد ہی میں جماعت کے ساتھ  نماز پڑھنی چاہیے ؛ اس لیے  کہ مسجد کا ثواب مسجد  ہی میں باجماعت نماز پڑھنے سے حاصل ہو گا، مدرسہ میں باجماعت نماز پڑھنے سے  مسجد کی نماز  کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔

البتہ اگربچوں کی کثرت کی وجہ سے یابچوں کو نماز کی تربیت کرانے کی غرض سے یا کسی دوسرے عذر کی بناپر مدرسہ ہی میں جماعت کرائی  جاتی ہو تو اس میں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ بالغ طلبہ کو مسجد ہی میں نماز  باجماعت پڑھانے کا اہتمام کرایا  جائے اور  نابالغ طلبہ   کی جماعت مدرسہ  میں کرادی جائے اور ان کی نگرانی   چند اساتذہ  یا بالغ طلبہ کرلیں اور وہ وہیں نماز پڑھ لیں  باقی اساتذہ مسجد میں نماز ادا کریں تو  یہ جائز ہوگا۔ بہر صورت مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کا ثواب مسجد کے علاوہ جگہوں میں حاصل نہیں ہوگا۔

سنن ابن ماجه (2/ 417):

'' عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "صلاة الرجل في بيته بصلاة، وصلاته في مسجد القبائل بخمس وعشرين صلاةً، وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخمس مائة صلاة، وصلاته في المسجد الأقصى بخمسين ألف صلاة، وصلاته في مسجدي بخمسين ألف صلاة، وصلاته في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة."

فتاوی شامی میں ہے:

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال)." (1/ 552)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200925

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں