بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق بائن کیسے واقع ہوتی ہے؟


سوال

طلاق بائن کیسے واقع ہوتی ہے؟

جواب

طلاق  بائن کہتے ہیں: کسی عورت پر ایسی طلاق واقع ہو جائے  جس کے بعد شوہر کے لیے رجوع کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی، سوائے تجدید نکاح کے، نیز عورت پر طلاق بائن  واقع ہوجائے، تو اس عورت کو بائنہ کہتے ہیں۔

اس کے وقوع ہونے کی چند صورتیں ہیں: ۱) اگر  شوہر نے دخول (بیوی سے ہمبستری) ہی نہ کی ہو ، اور طلاق کا لفظ ایک مرتبہ بول دیا، تو بائنہ ہوجاتی ہے، ۲) شوہر نے  ایک یا دو صریح طلاقیں دی ہوں، اور عدت کے دوران رجوع نہیں کیا، تو عدت کے گزرتے ہی عورت بائنہ ہوجائے گی۔۳) طلاق دیتے ہوئے شوہر کنائی الفاظ  استعمال کیے ہوں تو اس صورت میں بھی عورت بائنہ ہوجاتی ہے۔ 

طلاق  کے الفاظ دو طرح کے ہیں: ۱) طلاق صریح:  شوہر کا  اپنی بیوی سے ایسے الفاظ کہنا جس میں طلاق کے معانی صراحتا پائے جاتے ہوں، جیسے انت طالق، طلقتک، انت مطلقة، اس طرح کے الفاظ کو طلاق صریح کہتے ہیں،  دوسرے الفاظوں میں طلاق صریح ایسی طلاق کو کہتے ہیں کہ وہ لفظ جو طلاق کے معنی کے لیے ہی استعمال ہوتا ہو، اگر چہ  اس میں لفظ طلاق موجود نہ ہو، اور ایسے الفاظوں کی بناء عرف یعنی رواج پر ہوتی ہے۔ ان جسیے الفاظوں سے طلاق دینے کی بناء پر نتیجۃ جو مرتب ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک سے دو مرتبہ تک کے کہنے سے طلاق رجعی واقع ہوتی ہے، یعنی عدت کے اندر اندر اگر خاوند رجوع  کرتا ہے تو  عورت بدستور اپنی نکاح میں باقی رہتی ہے، خواہ عورت کی رضامندی ہو یا نہ ہو، البتہ اگر انہیں الفاظوں کےساتھ  طلاق دی ہو، مگر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا تو يه طلاق پھر طلاق بائن  کے حکم میں ہوجاتی ہے، یعنی تجديد نكاح لازم  ہے۔

۲) دوسری قسم  كے الفاظ :  ’کنایات‘: طلاق میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جس میں  طلاق کے معانی کے علاوہ اور بھی معانی پائے جاتے ہوں،اس طرح کے الفا ظ میں نیت  اور حالت کا اعتبار ہوتا ہے،  حالتیں تین طرح كي ہوتی ہیں:  یا تو شوہر خوشی میں یہ الفاظ کہہ دے، یا طلاق کا مذاکرہ ہورہا ہو، یا شوہر غصہ کی حالت میں ہو، یہ تین حالتیں ہیں۔  مذکورہ تینوں حالتوں  كا الگ الگ حکم ہوتا ہے، اگر طلاق کے وقوع کا فتوی ہو تو اس سے طلاق باین  واقع ہوتی ہے۔

مزید تفصیل کے لیے اگر کسی خاص جزئیہ سے متعلق   حکم معلوم کرنا ہو تو تفصیلا ذکر کرکے  اسے سوال میں جمع کروادیں۔ شکریہ

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" (الفصل الأول في الطلاق الصريح) . وهو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك وتقع واحدة رجعية وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا كذا في الكنز."

(الفتاوى الهندية: كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات: ج:1 ص:410، ط: دار الكتب العلمية)

"(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية."

(الفتاوى الهندية: كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات: ج:1 ص:410، ط: دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضا:

"إن اختارت الفرقة أمر القاضي أن يطلقها طلقة بائنة فإن أبى فرق بينهما هكذا ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في الأصل كذا في التبيين والفرقة تطليقة بائنة كذا في الكافي ولها المهر كاملا وعليها العدة بالإجماع إن كان الزوج قد خلا بها، وإن لم يخل بها فلا عدة عليها ولها نصف المهر إن كان مسمى والمتعة إن لم يكن مسمى كذا في البدائع."

(كتاب  الطلاق/باب العنين: ج:1 ص:550، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں