بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق ، طلاق کہنے سے دو طلاق رجعی واقع ہوگئیں


سوال

میرے شوہر نے مجھے مختلف اواقات میں لڑائی کے دوران یہ الفاظ استعمال کیے جس کی تفصیل درج  ذیل ہے:

1:پہلی لڑائی میں  مجھے کہا : طلاق ،پھر ایک دفعہ مجھے کہا  نکل جا میرے گھر سے، نہ نکلنے پر اس نے دوبارہ کہا نکل   ،چھ مہینے لڑائی رہی ، اس لڑائی کے دوران  انہوں نے مزید یہ الفاظ استعمال کیے: تو    رکھنے کے قابل نہیں ۔

2: اس کے چھ ماہ بعد اس نے  مجھے کہا :چھوڑدیا ہے میں نے، بس وقت کا انتظار ہے، رکھنا  تو تجھے ہے ہی نہیں،کسی کتیا کو رکھ لوں گا ، اب تجھے میں نہیں رکھوں گا،اب نہیں آؤں گا تیرے پاس۔

3: مجھے نہیں رکھنا ہے تجھے،     اب ہم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔

4: اب میرے پاس سارے آپشن ختم ہے، اب تجھے خبر ہوگی جب میں کچھ کروں گا۔ چھ مہینے کے بعد صلح ہوئی  اور لڑائی کے دوران  غصہ میں اس نے مجھے کہا:طلاق، واضح رہے کہ طلاق کے لفظ کو کھینچ کر استعمال کیا، البتہ  تھوڑا آہستہ سنائی دیا۔

5: چھوڑ تو        میں نے تجھے دیا ہے،یہ جملہ سات دفعہ سے زیادہ بولا، مجھے نہیں رکھنا تجھے ، یہ جملہ چاردفعہ سے زیادہ بولا۔

6: جب شوہر نے مجھے"  چھوڑ دیا کا لفظ کہا  تو اس کے تقریبا 5 ماہ بعد دو مرتبہ کہا : میں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے، میں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے،مذکورہ کلماات سے کتنی طلاقیں واقع ہوئی ؟ نیز واضح رہے کہ پہلی طلاق کے بعد کوئی رجوع نہیں ہوا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کو اس کے شوہر نے پہلی مرتبہ لڑائی کے دوران "طلاق" کا لفظ کہہ دیا  جس سے سائلہ پر ایک طلاق رجعی واقع  ہوگئی ،عدت کے دوران رجوع کا حق حاصل تھا،لیکن  چھ  ماہ  تک دونوں الگ رہے،عدت کے دوران شوہر نے قولی یا فعلی طور پر اپنی بیوی سے رجوع نہیں کیا، تو عدت گزر جانے کے بعد شوہر کے لیے رجوع کا اختیار نہیں ہے، لہذا دونوں کا نکاح ختم ہو گیا اور وہ عورت اپنے شوہر کے لیے اجنبی ہو گئی، لہذا  اس کے بعد  دی ہوئی طلاقوں  اور مذکورہ جملوں  کا اعتبار نہیں ہے، اس لیے کہ طلاق ایسی عورت پر واقع ہوتی ہے، جو نکاح میں ہو اور جو عورت نکاح میں نہ ہو، تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوتی۔اب اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں، تو نئے نکاح اور نئے مہر کے ساتھ دوبارہ رہ سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔نیز واضح رہے کہ اجنبی مرد وعورت کا ایک ساتھ خلوت میں رہنا حرام ہے، لہذا کسی مجبوری کی وجہ سے اگر اکٹھے ہی رہنا پڑتا ہے، تو نکاح کر کے ایک ساتھ رہیں۔

فی الھدایۃ:

"إذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقۃً رجعیۃً أو تطلیقتین فلہ أن یراجعہا في عدتہا رضیت بذٰلک أم لم ترض".

( الہدایۃ ، کتاب الطلاق / باب الرجعۃ)

وقال العلامۃ الکاسانی:

  "فلا یصح الطلاق الا فی الملک او فی علقۃ من علائق الملک وہی عدۃ الطلاق".

(بدائع الصنائع: ٣/ ١٢٦، فصل واماالذی یرجع الی المرأۃ)

وفي رد المحتار:

"وینکح مبانتہ بما دون الثلاث في العدۃ وبعدہا بالإجماع ومنع غیرہ فیہا لاشتباہ النسب".

(ردالمحتار: کتاب الطلاق ، باب الرجعۃ مطلب في العقد علی المبانۃ، ط: کراچی ۳/۴۰۹)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں