میرا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا ہوا، تو میں نے اس کو کہا: "طلاق ، طلاق" میں نے یہ الفاظ دو مرتبہ کہے، اس کے بعد میری بیوی کے گھر والے آئے اور میری بیوی کو اپنے ساتھ لے کر چلے گئے، اب وہ کہہ رہے ہیں کہ طلاق ہو گئی ہے، ہم نے ان کو کہا کہ دو طلاق ہوئی ہیں، تو وہ کہنے لگے کہ ہم نے معلوم کیا ہے، اب یہ لڑکی یہاں نہیں رہ سکتی،آپ ہماری رہنمائی فرمائیں کیا دو طلاق کے بعد ہم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان واقعۃً درست ہے کہ اس نے لڑائی جھگڑے کے دوران اپنی بیوی کو صرف دو مرتبہ "طلاق ،طلاق" کہا تھا، تیسری مرتبہ نہیں کہا تھا اور اس سے پہلے بھی ماضی میں کوئی طلاق نہیں دی تو ایسی صورت میں میاں بیوی کا عدت کے اندر رجوع کر کے ساتھ رہنا جائز ہے۔
رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر زبان سے یہ کہہ دے کہ میں نے تم سے رجوع کیا، ایسا کہنے سے رجوع درست ہو جائے گا اور ساتھ رہنا جائز ہو گا، بہتر ہے کہ رجوع پر گواہ بھی بنالیے جائیں ۔
عدت سے مراد تین ماہواری ہے اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش پر عدت مکمل ہوتی ہے، اگر عدت میں رجوع کر لیا تو نکاح بحال رہے گا، اگر عدت میں رجوع نہ کیا تو عدت گزر جانے کے بعد ساتھ رہنے کے لیے نئے مہر کے ساتھ شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنا ضروری ہوگا۔
البتہ اگر بیوی کا موقف شوہر کے موقف کے علاوہ ہو ، دونوں کے بیان میں تضاد ہو تو اس صورت میں کسی مستند مفتی /عالم سے اپنے اس مسئلہ کی تحکیم کروادی جائے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"و لا يلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ"
(کتاب الطلاق ، باب صریح الطلاق، ص : 248 ، ج : 3 ، ط : سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و إذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، كذا في الهداية."
(كتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة ، جلد : 1 ، صفحه : 470 ، طبع : دار الفكر)
الجوھرۃ النیرۃ میں ہے:
"والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي."
(کتاب الرجعة ، جلد : 2 ، صفحه : 50 ، طبع : المطبعة الخیریة)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت."
(کتاب الطلاق ، فصل فی حکم الطلاق ، صفحه : 491 ، جلد : 4 ، طبع : رشیدیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144701100328
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن