میں اور میری فیملی میرے سسرال میں گیے تھے تو بچہ میرے ساتھ واپس میرے ساتھ آ گیا دوسرے دن میری بیگم کا فون آیا اور بچے کا پوچھا تو میں نے کہا کہ تم تو آزاد ہو گئی ،یہ جملہ میں نے بچےکے حوالے سے کہا تھا مقصد میرابچہ تنگ کر رہا تھا اس جملے سے کوئی نکاح میں فرق تو نہیں پڑا ۔
اور دوسرا مسئلہ میں آ پ کی ایپ پر مسئلہ تلاش کرنے کی غرض سے طلاق لکھا تو خیال میری بیگم کی طرف چلا گیا، یہ وسوسہ تھا کوئی نیت نہیں تھی تو اس کا بھی بتا دیں اور مجھے طلاق کے وسوسے بہت آ تے ہیں علاج بتادیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل نے بچہ کے تنگ کرنے پر یہ کہا کہ تم آزاد ہوگئی تو اس سے نکاح پر کوئی اثرنہیں ہوگا، نکاح بدستور برقرار ہے، نیز دوسری صورت میں صرف وسوسہ آنے سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور وسوسہ کی طرف دھیان نہ دے اور خود اعتمادی پیدا کرے ان شاء اللہ یہ بیماری ختم ہو جائےگی۔
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:
"لو أجرى الطلاق على قلبه وحرك لسانه من غير تلفظ يسمع لا يقع."
(شروط الصلاۃ: 219، ط: قدیمی)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية."
(كتاب الطلاق، ركن الطلاق: 3/ 230، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510100311
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن