بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رجب 1446ھ 15 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق صریح میں شوہرکی نیت اور حاملہ کی عدت کا حکم


سوال

میری بہن کی شادی کو سات ماہ ہوئےہیں اور وہ تین ماہ کی حاملہ ہے ، اس کی ساس سے آئے دن جھگڑا ہوتا تھا ، جس کی وجہ سے وہ میکے آگئی تھی اور اپنے شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کررہی تھی، شوہر  جب اس کو لینے آیا تو الگ گھر کے مطالبہ پر اس نے تین مرتبہ طلاق دی ، الفاظ طلاق یہ ہیں  ’’ میں نے تمہیں طلاق دی ، میں نے تمہیں طلاق دی ، میں نے تمہیں طلاق دی ‘‘  اس وقت دونوں بہنیں اور والدہ بھی موجود تھیں ، اب شوہر کا کہنا ہے کہ میں نے صرف ڈرانےکے لیے یہ الفاظ بولے تھے تاکہ وہ گھر چلنے کےلیے تیار ہوجائے ، کیوں کہ مجھے پتہ تھا کہ اس حالت میں طلاق نہیں ہوتی اور دل سے میرا رادہ بھی  نہیں تھا ۔ 

اب پوچھنا یہ ہے کہ  مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ اگر ہوئی ہے تو عدت اور اس کاطریقہ کار بھی بتائیں ۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ  میں  سائلہ کی بہن  تین طلاقوں کے ساتھ مغلظہ ہوچکی ہےاور مذکورہ صورت میں  طلاق کے  الفاظ صریح ہونے کی وجہ سے  شوہر  کی نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ، لہذا اب یہ دونوں(میاں ، بیوی )  اکھٹے نہیں رہ سکتے ہیں اور مذکورہ عورت شرعی عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے کی شرعا مجاز ہوگی ۔ 

جہاں تک عدت کی بات ہے تو چوں کہ سائلہ کی بہن حاملہ ہے تو وضع حمل کے ساتھ ہی اس کی عدت پوری ہوجائے گی اور عدت اصولا شوہر کے گھر میں گزارنے کا حکم ہے اور شوہر کے ذمہ باپردہ  عدت  کی سہولت اور نفقۂ عدت کا انتظام  لازم ہوتاہے ، لیکن اگر شوہر کے وہاں یہ سہولت نہیں ہے یا شوہر اس کا انتظام نہ کرتا ہو تو پھر عدت میکے میں گزارے  اور شوہر کو نفقۂ عدت کا انتظام کرنا چاہیے ، عدت کے دوران سادگی اختیار کرے گی اور بلا ضرورت گھر سے نہیں نکلے گی ، ہاں اگر سخت مجبوری ہو  مثلا ڈاکٹر کو دکھانا تو پھر گنجائش  ہے ۔ 

فتاوی شامی میں ہے: 

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)..."[وقال بعده: ]" (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح،ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل، وإن قال تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى؛ ولو قيل له: طلقت امرأتك فقال: نعم أو بلى بالهجاء طلقت بحر (واحدة رجعية،وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئا) ولو نوى به الطلاق عن وثاق دين إن لم يقرنه بعدد..."

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج: 3، ص: 248 - 251 ، ط: سعيد) 

وفیه أیضا: 

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب (لا) ينكح (مطلقة) من نكاح صحيح نافذكما سنحققه (بها) أي بالثلاث (لو حرة وثنتين لو أمة) ولو قبل الدخول، وما في المشكلات باطل، أو مؤول كما مر (حتى يطأها غيره ولو) الغير (مراهقا) يجامع مثله، وقدره شيخ الإسلام بعشر سنين..."

(كتاب الطلاق، با ب الرجعة، ج: 3، ص: 410 ، ط: سعيد) 

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان. وسواء كانت المرأة حرة أو مملوكة قنة أو مدبرة أو مكاتبة أو أم ولد أو مستسعاة مسلمة أو كتابية كذا في البدائع. وسواء كانت عن طلاق أو وفاة أو متاركة أو وطء بشبهة كذا في النهر الفائق."

(كتاب الطلاق، باب العدة ، 1، ص: 528، ط: دار الفكر) 

وفيه أيضا:

"على المعتدة أن تعتد في المنزل الذي يضاف إليها بالسكنى حال وقوع الفرقة والموت كذا في الكافي.لو كانت زائرة أهلها أو كانت في غير بيتها لأمر حين وقوع الطلاق انتقلت إلى بيت سكناها بلا تأخير وكذا في عدة الوفاة كذا في غاية البيان."

(كتاب الطلاق، باب العدة ، ج: 1، ص: 535، ط : دار الفكر) 

فتاوی شامی میں ہے: 

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه..."[وفي رد المحتار: ]"(قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية."

(كتاب الطلاق، باب العدة ، ج: 3، ص: 536، ط: سعيد)

المحيط البرهاني میں ہے: 

"وتعتد المتعدة في المكان الذي سكنت قبل مفارقة الزوج وقبل موته قال الله تعالى: {لاَ تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ} (الطلاق: 1) والإضافة إليهم باعتبار السكنى في البيوت التي كن يسكن فيها قبل المفارقة..."

(كتاب الطلاق، الفصل السادس والعشرون في مسائل العدة ، ج: 4، ص: 84،ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144604100534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں