بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق قبل الدخول کی صورت میں مہر کا حکم


سوال

میرا نکاح ہوا ہے چھ مہینے پہلے، لیکن میں شادی نہیں کرنا چاہتا تو جو نکاح میں حق مہر لکھا گیا تھا وہ مجھے دینا چاہیے یا نہیں دینا چاہیے؟ اس حق مہر کا کچھ حصہ دینا پڑے گا تو اس بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مجھے بتائیے کیا کرنا ہے؟

جواب

اگر  آپ کا نکاح ہو چکا ہے اور اب آپ رخصتی نہیں کرنا چاہتے، بلکہ علیحدگی چاہتے ہیں اور اب تک آپ کی اپنی منکوحہ سے خلوتِ صحیحہ بھی نہیں ہوئی ہے، (یعنی تنہائی میں اس طرح ملاقات نہیں ہوئی کہ اگر آپ حقوقِ زوجیت ادا کرنا چاہتے تو کرسکتے) تو ایسی صورت میں آپ کے ذمہ مقرر کیے گئے مہر کا نصف ادا کرنا لازم ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 104):

"(و) يجب (نصفه بطلاق قبل وطء أو خلوة)

(قوله: ويجب نصفه) أي نصف المهر المذكور، وهو العشرة إن سماها أو دونها أو الأكثر منها إن سماه".

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144204200218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں