بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق پر قسم کے بعد طلاق سے بچنے کا طریقہ


سوال

 میرا تعلق ایک ایسے ادارے کے ساتھ ہے جس نے چند کمپنیوں سے مارکیٹنگ کی ذمہ داری لی ہے،ہمارا مکمل ادارہ مارکیٹ میں دیے گئے مال کی پیمنٹ کا ذمہ دار ہوتا ہے، مال ہمارے ادارے کے توسط سے ڈسٹری بیوٹر کے پاس جاتا ہے، اب مسئلہ یہ پیش آیا کہ ہمارے ادارے کے ایک ذمہ دار ساتھی کی ایک ڈسٹری بیوٹر سے پیمنٹ کے معاملے میں بحث و تکرار ہوئی ،جس سے نوبت اس حد تک جا پہنچی کہ ہمارے ذمہ دار ساتھی نے ڈسٹری بیوٹر کو کہا اگر آپ سے یہ پیمنٹ میں نے لی یا آپ نے خود کمپنی میں جمع کروائی تو میری بیوی پر تین طلاق حالانکہ پیمنٹ کا ذمہ دار فقط یہ ایک شخص نہیں بلکہ ادارہ ہے ،تو کیا ادارہ کے دیگر افراد اگر یہ پیمنٹ ڈسٹری بیوٹر سے وصول کرکے کمپنی میں جمع کرا دیں تو طلاق ہوجائے گی ؟ یا اس کے علاوہ کوئی اور ایسی صورت بن سکتی ہے کہ جس سے وہ پیمنٹ بھی کمپنی کو وصول ہو جائے اور طلاق بھی واقع نہ ہو ،نیز طلاق دینے والے پر کیا کفارہ لازم ہوگا ؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر  ادارہ کسی اور فرد کو بھیج کر وہ رقم وصول کر لیتا ہے تو ایسا کرنے سے مذکورہ شخص کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں گی ۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"‌الأيمان ‌مبنية ‌على الألفاظ لا على الأغراض (قوله الأيمان مبنية على الألفاظ إلخ) أي الألفاظ العرفية بقرينة ما قبله واحترز به عن القول ببنائها على عرف اللغة أو عرف القرآن ففي حلفه لا يركب دابة ولا يجلس على وتد، لا يحنث بركوبه إنسانا وجلوسه على جبل وإن كان الأول في عرف اللغة دابة، والثاني في القرآن وتدا كما سيأتي وقوله: لا على الأغراض أي المقاصد والنيات، احترز به عن القول ببنائها على النية. فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر، ولهذا قال في تلخيص الجامع الكبير وبالعرف يخص ولا يزاد حتى خص الرأس بما يكبس ولم يرد الملك في تعليق طلاق الأجنبية بالدخول اهـ ومعناه أن اللفظ إذا كان عاما يجوزتخصيصه بالعرف كما لو حلف لا يأكل رأسا فإنه في العرف اسم لما يكبس في التنور ويباع في الأسواق، وهو رأس الغنم دون رأس العصفور ونحوه، فالغرض العرفي يخصص عمومه، فإذا أطلق ينصرف إلى المتعارف، بخلاف الخارجة عن اللفظ كما لو قال لأجنبية إن دخلت الدار فأنت طالق، فإنه يلغو ولا تصح إرادة الملك أي إن دخلت وأنت في نكاحي وإن كان هو المتعارف لأن ذلك غير مذكور، ودلالة العرف لا تأثير لها في جعل غير الملفوظ ملفوظا."

(فتاوی شامی ،کتاب الایمان ،ج:3،ص:743،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"‌‌باب اليمين في البيع والشراء والصوم والصلاة وغيرها الأصل فيه أن كل فعل تتعلق حقوقه بالمباشر كبيع وإجارة لا حنث بفعل مأموره وكل ما تتعلق حقوقه بالآمر كنكاح وصدقة وما لا حقوق له كإعارة وإبراء يحنث بفعل وكيله أيضا لأنه سفير ومعبر(يحنث بالمباشرة) بنفسه (لا بالأمر إذا كان ممن يباشر بنفسه في البيع) ومنه الهبة بعوض ظهيرية (والشراء) ومنه السلم والإقالة."

(کتاب الایمان ،ج:3،ص:813،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100285

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں