بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق پر جُرمانہ لازم کرنا


سوال

میرا نکاح2015 میں ہوا،نکاح کے وقت کوئی شرط نہیں لگائی گئی تھی،نکاح کےبعد میرے سالوں نے نکاح خواں کے پاس جاکر میری رضا مندی کے بغیر یہ شرط لکھوادی کہ "طلاق دینے کی صورت میں لڑکے کو دس لاکھ روپے کا جُرمانہ ادا کرنا ہوگا"،اب کیا طلاق دینے کی صورت میں،مجھے دس لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے،حالاں کہ یہ شرط میری رضا مندی کے بغیر لکھوائی گئی تھی؟

اسی طرح میرے سالوں نے مجھے کہا کہ تمہیں تین طلاق!،آج سے میری بہن سے کوئی تعلق نہ رکھنا،کوئی بات نہ کرنا،اگر بات کی تو تمہیں گھر بیٹھے مار دیں گے،کیا ان کے اس طرح کہنے سے میری بیوی کو طلاق ہوجائے گی،حالاں کہ میں نے تو اپنی بیوی کے لیےکوئی طلاق کا جملہ منہ سے نہیں نکالا؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق دینے پر جُرمانے کی شرط لگانا،طلاق کے مقصدِ مشروعیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے،شریعت نے طلاق کو اس لیے مشروع کیا ہے کہ اگر زوجین کا آپس میں نباہ ممکن نہ ہو رہا ہو تو معاملات کی مزید خرابی  سے پہلے،آدمی اس عورت کو عزت کے ساتھ رخصت کردے،اس علیحدگی پر جرمانہ لازم کرنا،دلوں میں اور نفرت کی آگ پیدا کرنے کا باعث ہے،کیوں کہ اگر آدمی کے پاس اس جرمانے کی استطاعت نہ ہو تو وہ اس عورت کو اپنے پاس رکھنے پر مجبور ہوگا،اور یوں، نہ اس کے حقوق ادا کرپائے گااور نہ ہی اس کو علیحدہ کرسکے گا،اس لیے ایسی شرط لگانا جائز نہیں ہے،اگر بالفرض یہ شرط لگا،بھی دی گئی تو طلاق دینے کی صورت میں طلاق،بلا شرط واقع ہوجائے گی،اور وہ جرمانہ لازم نہ ہوگا۔

طلاق کا اختیار شرعاً شوہر کو حاصل ہے،لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً شوہر نےطلاق کاکوئی جملہ منہ سے نہیں نکالا تو صرف بیوی کے بھائیوں کے"تمہیں تین طلاق ہے" کہنے سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"ولأن ‌شرع ‌الطلاق في الأصل لمكان المصلحة؛ لأن الزوجين قد تختلف أخلاقهما وعند اختلاف الأخلاق لا يبقى النكاح مصلحة؛ لأنه لا يبقى وسيلة إلى المقاصد فتنقلب المصلحة إلى الطلاق ليصل كل واحد منهما إلى زوج يوافقه فيستوفي مصالح النكاح منه."

(ص:112،ج:3،کتاب الطلاق،‌‌فصل في ألفاظ الكناية في الطلاق،ط:دار الکتب العلمیة)

"رد المحتار"میں ہے:

"ومايصح و لا يبطل بالشرط الفاسد ... القرض والهبة والصدقة والنكاح والطلاق والخلع والعتق والرهن والإيصاء. والمراد بقول الشارح ما يصح أي في نفسه ويلغو الشرط،... أشار إلى ما قدمه في الأصل الأول من أن ما ليس مبادلة مال بمال لا يفسد بالشرط الفاسد أي ما لا يقتضيه العقد ولا يلائمه."

(ص:249،ج:5،کتاب البیوع،باب‌‌ما يبطل بالشرط الفاسد ولا يصح تعليقه به،ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"من يتصرف في حق غيره...بغير إذن شرعي...كل تصرف صدر منه تمليكا كان كبيع وتزويج، وإسقاطا كطلاق وإعتاق وله مجيز أي لهذا التصرف من يقدر على إجازته  حال وقوعه انعقد موقوفا وما لا يجيز له حالة العقد لا ينعقد أصلا.قال في البحر: والظاهر في فروعهم أن كل ما صح التوكيل به إذا باشره الفضولي يتوقف."

(ص:106،ج:5،کتاب البیوع،فصل في الفضولي،ط:سعید)

"ألمبسوط للسرخسي" میں ہے:

"قوله صلى الله عليه وسلم "الطلاق ‌بالرجال والعدة بالنساء"والمعنى فيه أن الزوج هو المالك للطلاق المتصرف فيه."

(ص:39،ج:6،کتاب الطلاق،باب العدة وخروج المرأة من بيتها،ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں