بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق نامہ پر دستخظ کرنا


سوال

 میرااپنی بیوی سے مختلف وجوہات کی بنا  پر جھگڑا رہتا تھا،آئے روزپیش آمدہ جھگڑوں سے تنگ آکر بیوی کو ڈرانے کے لیے بغرضِ  اصلاح میں نے ایک طلاق دینے کا فیصلہ کیا،چوں کہ میں طلاق دینے کے طریقہ کار سے ناواقف تھا،اس لیے اس سلسلے میں میں نے اپنے ایک قریبی عزیز سے مشورہ کیا،وہ مجھےعلاقے کی کچہری میں ایک اسٹام فروش کے پاس لے گئے اور مجھے باہر بیٹھنے کو کہااورخود اندر اسٹام فروش کے پاس چلے گئے اورایک طلاق نامہ لکھوا کر لائے، جس کا عنوان تھا  (طلاق ثلاثہ)،اس طلاق نامہ میں انہوں نے میری بیوی پر بدکردار ہونے کی تہمت کے ساتھ ساتھ بہت سی خلاف واقع باتیں لکھوائیں ،جنہیں میں نے رد کر دیا  اور  تبدیل کرنے کو  کہا،کیوں کہ میں جانتا تھا کہ میری بیوی ایسی نہیں ہے،اس پر انہوں نے کہا کہ طلاق کی کوئی نہ کوئی وجہ طلاق نامہ میں درج کرنا ضروری ہے، چنانچہ  میں نےمعمولی باتوں پرجھگڑا اور بدتمیزی اور بداخلاقی وغیرہ کو طلاق کی وجہ کے طور پر لکھوایا،اس کے بعد وہ طلاق نامہ میرے پاس لائے اور مجھ سے دستخط کرنے کوکہااورمیں نے بھی اپنی رضامندی سے اس پر  دستخط کردیے،اس واقعہ کے وقت  میری  اہلیہ امید سے تھیں اورمیں اس کے بعد ان کے پاس آتا جاتا رہا،اس پر مجھ سے میری اہلیہ اوران کے بھائی نے پوچھا کہ کیا ہم اس آنے جانے کوآپ کی جانب سے رجوع سمجھیں؟ تو میں نے کہاکہ بالکل آپ اسے رجوع سمجھیں،مگر میں یہ بات حلفًاباللہ کہتا ہوں کہ میں طلاق ثلاثہ کے مفہوم سے بالکل ناواقف تھااورمیں نے کچہری جاتے ہوئے گھر سے ہی یہ طے کرلیاتھا کہ میں نے صرف بغرضِ اصلاح ایک طلاق دینا ہےاورمیں نے اس طلاق نامہ پر یہی سمجھتے  ہوئے دستخط بھی کیے کہ اس سے ایک ہی طلاق ہوگی،اس کے علاوہ زبان سے بھی میں نے طلاق کے کسی قسم کے کوئی الفاظ ادا نہیں کیے، مذکورہ صورتِ حال میں مجھے شرعی حکم سے آگاہ کیا جائے کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں اوراگر میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہنا چاہوں تو شرعًا مجھے کیا کرنا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میںیہ عذر قابلِ قبول نہیں ہے، سائل طلاق کے طریقے سے ناواقف تھا تو علماءِ کرام ہر علاقے میں موجود ہیں، طلاق دینے سے پہلے ان سے راہ نمائی لینا چاہیے تھی، لہٰذا جس طلاق نامے پر تین طلاقیں لکھی تھیں اس پر یہ سمجھتے ہوئے دستخط کرنا کہ تین طلاقیں دینے سے صرف ایک ہی طلاق واقع ہوگی، یہ عذر قابلِ قبول نہیں ہے؛ تینوںطلاقیں واقع ہوچکی ہیں،  سائل کی بیوی سائل  پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  رجوع جائز نہیں، نیز تجدیدِ نکاح کی بھی اجازت نہیں ہے۔قرآن مجید میں ہے:

{ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ... فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}[البقرة: 229، 230]

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها."

(عالمگیری، ج ۱،ص ۴۷۳، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200966

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں