بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے طلاق کے وقوع کا حکم


سوال

میرے بیٹا کا اپنی بیوی سے دو ماہ پہلے  گھریلو مسئلہ پر جھگڑا ہوا تھا ،اس نے اس کو مارا بھی تھا ،اس کی بیوی گھر چھوڑ کر والدین کے گھر چلی گئی ،میری بہو کے والد کو غصہ آیا اور انہوں نے طلاق نامہ کے پیپر جس میں تین طلاقیں درج تھیں ،بیٹے کو بھیجا کہ اس کاغذ پر دستخط کر دو ورنہ ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے ،جس پر میں خوف زدہ ہو گئی اور بیٹے سے کہا کہ اس پر دستخط کر دو ،میں خود بیوہ ہوں ،میرے کہنے کی وجہ سے میرے بیٹے نے دستخط کر دیے ،منہ سے کچھ ادا نہیں کیا ،اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں کہ کیا ہوگا ،ان کے تین بچے بھی ہیں ،اور میں خود بھی بیوہ ہوں ۔ابھی لڑکی والے بھی پشیمان ہیں ،اور باہمی رضامندی سے نباہ پر تیار بھی ہیں ۔

وضاحت:میرے بیٹے کے سسر نے خط کشیدہ الفاظ کے ذریعہ جو دھمکی دی تھی تو یہ صرف ایک دھمکی تھی ،بیٹے کے سسر ایسا کچھ کرنے والے نہیں تھے  کہ وہ اسے مارتے یا نقصان پہنچاتے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے بیٹے نے  طلاق نامہ پر دستخط کردئے تو دستخط کرتے ہی  اس کی بیوی  پر تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں،نکاح ختم ہو گیا، اب رجوع جائز نہیں ، اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا،مطلقہ اپنی عدت(پوری تین ماہواریاں اگر حاملہ نہ ہو،اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک )گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے،ہاں اگر مطلقہ اپنی عدت گزار کر کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرے اور اس سے جسمانی تعلق (صحبت )ہو جائے ،اس کے بعد دوسرا شوہر اسے طلاق دیدے یا بیوی طلاق لے لے یااس  کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر (سائلہ کا بیٹا)سے نکاح کر سکے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

وإن كانت مرسومةيقع الطلاق نوي أو لم ينو  ثم المرسومة لا تخلو إما أن ارسل الطلاق بأن كتب :أما بعد فأنت طالق ،فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة"

(كتاب الطلاق مطلب فی الطلاق بالکتابۃ ،ج:3،ص:246، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير"۔

(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعۃ و فیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ، فصل فیما تحل بہ المطلقہ ومایتصل بہ، ج:1، ص:473، ط:رشیدیہ)

الدر المختار میں ہے:

"الإكراه. (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله)"

(کتاب الاکراہ ،ج:6،ص:129،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں