بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جعلی/فرضی/جھوٹا طلاق نامہ بنوانے پر طلاق کا حکم


سوال

میرے گھر والوں نے میری شادی میری مرضی کے خلاف کروائی تھی میں امریکہ میں رہتا ہوں، اور وہاں کے قانون کے مطابق ایک مرد ایک بیوی رکھ سکتا ہے۔ میرے گھر والوں نے میری مرضی کے بغیر میری بیوی کے کاغذات Documents تیار کئے تھے تاکہ اس کو وہاں کا ویزہ مل سکے، لیکن میں ایسا نہیں چاہتا تھا کہ وہ میرے پاس امریکہ آجائے اس لئے میں نے وہ Documents پھاڑ دیے لیکن پھر بھی میں ان کا غذات میں شادی شدہ ہوں، اور وہ میری بیوی کے طور پر show ہو رہی تھی۔ میرا ارادہ تھا دوسری شادی کا،  لیکن میں اپنے گھر والوں کی وجہ سے پہلی بیوی کو بھی ساتھ رکھنا چاہتا تھا اس لئے دوسری شادی کے بعد میں نے پہلی بیوی کے لیے تین طلاق کا طلاق نامہ بنوایا (جو منسلک ہے ) تاکہ میں دوسری بیوی کو اپنے ساتھ امریکہ لے جاسکوں۔ اس طلاق نامہ پر میں نے اور میری پہلی بیوی نے دستخط بھی کئے اور میں نے اپنی پہلی بیوی کو اپنے شناختی کارڈ ریکارڈ سے بھی ہٹوا کر اس کو اس کے باپ کے نام سے منسوب کر دیا اس وقت میرا ارادہ صرف یہی تھا کہ میں اپنے ریکارڈ سے اپنی پہلی بیوی کو ہٹوا کر دوسری بیوی کو ڈال دوں اور اس کو اپنے ساتھ لے جاسکوں اور میں یہ show کر سکوں کہ اس کی طلاق ہو چکی ہے، اب مجھے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ طلاق ہو چکی ہے، تو سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں میرا نکاح برقرار ہے یا واقعی طلاق ہو چکی ہے ؟ اگر طلاق ہو چکی ہے تو از روئے شریعت میرے لئے کیا حکم ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ اگر    کوئی شخص کسی قانونی تقاضے اور مجبوری کی وجہ سے   فرضی اور جھوٹا طلاق نامہ بنوانا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے  اس  بات پر دو گواہ بنالے کہ جو طلاق نامہ میں بنوانا چاہتا ہُوں وہ حقیقی نہیں بلکہ جعلی ہوگا، اس طرح ان دونوں گواہوں کو یہ معلوم ہو کہ  اس جھوٹے طلاق نامہ سے طلاق کی نیت نہیں ہے،  توجھوٹا طلاق نامہ بنوانے سے طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر گواہ نہیں بنائے گئے، اور طلاق نامہ تیار کرلیا گیا، بعد میں دعوی کیا گیا کہ یہ جھوٹا اور فرضی طلاق نامہ ہے، تو اس دعوی کا شرعاً اعتبار نہیں کیا جائے گا، اور طلاق واقع ہو جائے گی۔لہذا سوال میں ذکرکردہ صورت میں    قانونی مجبوری کی بناء پر جھوٹا طلاق نامہ بنواتے وقت چوں کہ  سائل  نے شرعی گواہ قائم نہیں کیے کہ یہ جعلی اور فرضی طلاق نامہ بنوا رہا ہوں، لہٰذا طلاق نامہ بنوانے سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں،سائل پراس کی بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،نکاح ختم ہوگیاہے،تین طلاقوں کےبعداب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ  آپس میں نکاح بھی نہیں ہوسکتا،مطلّقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگرحمل نہ ہو،اگرحمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزارکردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌ثلاث ‌جدهن جد، وهزلهن جد: النكاح، والطلاق، والرجعة ".

(كتاب الطلاق، باب من طلق أو نكح أو راجع لاعباً، ج:1، ص658، ط:دار إحياء الكتب العربية-بیروت)

فتاوی شامی میں ہے: 

"لو ‌أراد ‌به ‌الخبر ‌عن ‌الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضا".

(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص:238، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة الخ".

(کتاب الطلاق،مطلب فی الطلاق بالکتابۃ،ج:3،ص:246،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"قال: أنت طالق أو أنت حر وعنى الإخبار كذبا وقع قضاء، إلا ‌إذا ‌أشهد ‌على ذلك، وكذا المظلوم إذا أشهد، عند استحلاف الظالم بالطلاق الثلاث أنه يحلف كاذبا صدق قضاء وديانة".

(کتاب الطلاق،مطلب الطلاق یقع بعدد قرن بہ لابہ، ج:3، ص:390، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}".

(کتاب الطلاق، فصل في حکم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط:سعید) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ".

(کتاب الطلاق، الباب السادس فی الرجعة، ج:1، ص:473، ط:رشیدیه)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"الجواب حامدا و مصلیا: اگر لڑکا پہلے اس بات کا گواہ بنا لے کہ میں طلاق نامہ پر غلط دستخط کروں گا، یا عدالت میں طلاق کا غلط اقرار کروں گا، واقعۃً نہ طلاق دی ہے نہ طلاق دینا مقصود ہے تو اس کے اس جھوٹے اقرار یا جھوٹے دستخط سے طلاق واقع نہیں ہوگی: لو ‌أراد به ‌الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء ."

(کتاب الطلاق، باب وقوع الطلاق و عدم وقوعہ، ج:12، ص:244،ط:ادارۃ الفاروق، کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں