بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق نامہ پڑھے بغیر طلاق دینے کا حکم


سوال

میرے بہنوئی کو ڈپریشن کی شکایت ہے، وہ ڈپریشن کی وجہ سے ادویات بھی استعمال کرتے رہیں ہیں، کچھ گھریلو مسائل کی بناء پر اسی ڈپریشن کی حالت میں ان پر ذہنی دباؤ اور حبس بے جا کے ذریعےان سے طلاق کے پیپرز پر سائن لیے گئے،  جب کہ نہ تو انہوں نے طلاق کے پیپرز بنوائے، نہ انہوں نے طلاق نامہ پڑھا،  نہ ہی انہیں معلوم تھا کہ اس طلاق نامے میں کتنی طلاقیں لکھی ہوئی ہیں اور وہ حلفیہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی طلاق دینے کی نہ تو کوئی نیت تھی اور نہ ہی کوئی ارادہ تھا، کیا اس صورتِ حال میں طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ طلاق نامہ آپ کے بہنوئی  نے نہیں بنایا اور نہ ہی پڑھا تھا، لیکن اسے یہ معلوم تھا کہ یہ طلاق نامہ ہے، لیکن اس میں موجود طلاقوں کی تعداد پتہ نہیں تھی تو اس پر دستخط کرنے کی وجہ سے اس کی بیوی پر   ایک طلاقِ رجعی  واقع ہوگئی ہے، اب اگر اس کی بیوی  ابھی تک عدت میں ہے (یعنی تین ماہواریاں مکمل نہیں ہوئی یا حمل سے ہے)تو نکاح کےبغیر رجوع کیا جا سکتا ہے اور اگر رجوع کیے بغیر عدت مکمل ہوچکی ہےتو نکاح ختم ہوچکا ہے، اب اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، اس کے بعد شوہر کو  آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه."

(كتاب الطلاق، ج:٣، ص:٢٤٦، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں