اگر کسی عورت کو اسکا شوہرطلاق کاغذات میں تین طلاق دے تو تین شمار کی جائیں گی یا ایک؟
واضح رہے کہ اپنی بیوی کیلئے جس طرح زبان سے طلاق کے الفاظ استعمال کرنے سے طلاق واقع ہوتی ہے، اسی طرح طلاق کا تحریری نوٹس اورکاغذات تیار کروانے اور اس پر دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے،لہذااگرکوئی مرداپنی بیوی کوتحریری طورپر تین طلاقیں دیتاہےتودیگرشرعی شرائط کالحاظ کرتے ہوئےتین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اوربیوی حرمت مغلظہ کےساتھ شوہر پر حرام ہوجاتی ہے٬ اور نکاح ختم ہوجاتاہے،اس کےبعدنہ تو رجوع ہوسکتا ہے، نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو ... ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقراراً بالطلاق وإن لم يكتب؛ ولو استكتب من آخر كتاباً بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها، وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخةً وابعث بها إليها..."
(مطلب في الطلاق بالكتابة،246/3،ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - ﴿فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَه﴾[البقرة: 230] ،وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
( کتاب الطلاق،فصل في حكم الطلاق البائن،3/ 187،ط:سعید)
فقط واللہ علم
فتوی نمبر : 144311100025
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن