بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق نامہ بنوایا لیکن دستخط نہیں کیے


سوال

میں ۱۸فروری ۲۰۲۲ءکو ایک وکیل کے پاس گیا اور اسے اپنی بیوی اور اپنے حوالے سے طلاق کے کا غذ بنانے کو کہا،اس نے مجھ سے پوچھا کہ کتنی طلاق کے کاغذ بنانے ہیں؟میں نے کہا:تین طلاق کے۔مگر میں نے اس کے پوچھنے پر بتایا کہ میں کا غذات پر دستخط ابھی نہیں کروں گااور گھر جاکر فیصلہ کروں گا،لہذا اس نے مجھے کاغذات بنادیے جس میں واضح طور پر تین طلاق لکھا تھا،مگر اس میں تاریخ نہیں لکھی تھی۔میں گھر آیا اور بہت سوچا مگر میں فیصلہ نہیں کر پاراہاتھا کہ دستخط کروں کہ نہیں،میں نے دوبھائیوں سے گواہ کی جگہ پر دستخط لے لیےاور کا غذ پر تاریخ بھی ڈال دی مگر میں خود دستخط نہیں کر پایا،میں یہ سمجھ رہا تھا کہ دستخط کرنے سے ہی طلاق ہوگی اور میں نے ابھی تک دستخط نہیں کیے ہیں۔

مجھے اب یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا طلاق واقع ہوگئی ہے؟اگر ہاں تو ایک طلاق یا تین طلاق؟میرا دل مطمئن نہیں تھا کہ مجھے دستخط کرنے ہیں یا نہیں،کیونکہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ دستخط کے بعد طلاق ہوگی اور میں نہ دستخط کرپایا۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل نےاپنے  وکیل سے  طلاق نامہ بنوایا اور  اس میں تین طلاقیں تحریر کرنے کا کہا ،جس پر سائل کے وکیل نے تین طلاقیں تحریر کردی تو شرعا سائل کی بیوی پر تیں طلاقیں واقع ہوگئیں،سائل کی بیوی سائل پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے ،اب رجوع کی گنجائش نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا،سائل کی بیوی اپنی عدت(مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو،اگر حمل ہے تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر کسی اور شخص سے نکاح کرنے میں آزاد  ہو گی۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو........ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب؛ ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصا."

(کتاب الطلاق،مطلب في الطلاق بالكتابة،ج۳،ص۲۴۶،ط؛سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے۔

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق ،الباب السادس فی الرجعۃ،ج۱ص۴۷۳،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101896

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں