بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق معلق کی ایک صورت


سوال

آج سے تقریباً سولہ سال قبل ( یعنی جب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی ) ، میری بڑی سالی میرے گھر آئی ہوئی تھی اس نے بحث و تکرار کے دوران میرے والدمرحوم  کو گالی دی ۔ مجھے اپنی سالی کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا اور میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ اگر میں تمہارے گھر گیا تو تو مجھ پر طلاق ہے ۔ اس واقعہ کے بعد سے میں اپنے سسرال نہیں گیا ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا جب بھی میں اپنے سسرال جاؤں گا تو طلاق واقع ہو جاۓگی؟ کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ میں سسرال جاسکوں اور بیوی کو طلاق بھی نہ ہو؟

جواب

واضح رہے کہ شادی کے بعد جب شوہر اپنی بیوی کو اپنے گھر لے آئے یا کسی بھی دوسری جگہ ٹھہرائے تو بیوی کا  میکا اُس کا گھر نہیں کہلاتا بلکہ وہ تو اس کے والدین کا گھر ہوتا ہے ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا یہ کہنا کہ " اگر میں تیرے گھر گیا تو تو مجھ پر طلاق ہے " اس جملہ سے اگر آپ کی نیت میں سسرال تھا تو آپ کا سسرال چونکہ آپ کی اہلیہ کا گھر نہیں ہے بلکہ وہ تو ان کے والدین کا گھر ہے لہٰذا سسرال جانے سے آپ کی اہلیہ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(حلف لايدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى إليه ) عرفاً ولو تبعاً أو بإعارة باعتبار عموم المجاز، ومعناه كون محل الحقيقة فرداً من أفراد المجاز ... كان المعتبر نسبة السكنى عرفًا ولايخفي أن بيت المرأة في العرف ما تسكنه تبعًا لزوجها، .... ". (3/760)

دررالحکام میں ہے :

"( حلف لايدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى ) بدلالة العادة وهي أن الدار لاتعادى ولاتهجر لذاتها بل لبعض ساكنيها إلا أن السكنى قد تكون حقيقةً وهو ظاهر وقد تكون دلالةً بأن تكون الدار ملكًا له فيتمكن من السكنى فيها فيحنث بالدخول في دار تكون ملكًا لفلان فلايكون هو ساكنًا فيها سواء كان غيره ساكنًا فيها أو لا؛ لقيام دليل السكنى التقديري وهو الملك، صرح به في الخانية والظهيرية". (5/214) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں