ایک شخص نے اپنی بیوی کو کہا اگر میں نے یہ دودھ پی لیاتو آپ کو طلاق ہے بعد میں اسی دودھ میں چائے بنا کے پی لی تو اس صورت میں طلاق واقع ہوئی ہےیانہیں؟
واضح رہے کہ قسم میں عرف کا بڑا دخل ہوتا ہے؛ لہذا اگر کسی چیز میں تغیرآنے یا اس چیزکو مختلف طریقوں سے استعمال کرنے کی وجہ سے اس کا نام بدل جاتا ہو تو اس میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا۔
صورتِ مسئولہ میں دودھ سے چائے بنا کر پی لینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی ہے ،اس لیے کہ ابھی اس کا نام بدل گیا ہےاور عرف میں چائے پر دودھ کا اطلاق نہیں ہوتا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل حلف أن لا يأكل هذا اللبن فجعله جبنا وأكله لا يحنث في يمينه إلا أن ينوي أكل ما يتخذ منه كذا في فتاوى قاضي خان."
وفیہ ایضا:
"ولو حلف لا يأكل لبنا فطبخ به أرزا فأكله قال أبو بكر البلخي لا يحنث وإن لم يجعل فيه ماء وإن كان يرى عينه كذا في الحاوي."
(كتاب الأيمان، الباب الخامس في اليمين على الأكل والشرب، 81،82/2، ط:دارالفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ثم إن المائع الذي لا يحتمل المضغ إنما يسمى مشروبا إذا تناوله وحده وإلا فهو مأكول وكذا عكسه. ففي البحر عن البدائع لو حلف لا يأكل هذا اللبن فأكله بخبز أو تمر أو لا يأكل هذا العسل أو الخل فأكله بخبز يحنث لأنه هكذا يكون ولو أكله بانفراده لا يحنث لأنه شرب لا أكل...قلت والحاصل أنه إذا حلف لا يأكل مائعا كلبن وسمن وخل فإن شربه لا يحنث وإن تناوله مع غيره ولم يستهلك كأكله بخبز أو تمر حنث وإن استهلك بأن لا يجد طعمه أو بأن لا ينعصر على الخلاف في تفسيره لم يحنث."
(كتاب الأيمان، باب اليمين في الأكل والشرب واللبس والكلام، 765/3، ط:دارا لفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601101372
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن