ایک شخص شک میں مبتلا ہے کہ طلاق کے الفاظ بولےہیں کہ نہیں ،ذہن پر زور ڈالنے سے کبھی نہ بولنے کا پہلو راجح ہوتا ہےاور کبھی بولنے کا، غالب گمان ایک طرف بھی نہیں اور جب میں اپنے آپ کو قسم دیتا ہوں تو میں قسم نہیں اٹھا سکتا کہ میں نے ایسا کہا ہو ،اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
سائل طلاق کے وسوسے میں مبتلا ہے، اور بارہا سائل کوجواب دیا جاچکا ہے کہ محض وسوسے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، سائل کے کئی سوالات کے جوابات دیئے جاچکے ہیں جو ویب سائٹ پر پبلش ہوچکے ہیں، اس لیے سائل کو چاہیے کہ بار بار ایک ہی نوعیت کا مسئلہ دریافت کرنے اور ایک ہی سوال کئی بار ویب سائٹ پر بھیجنے کے بجائے کسی قریبی معتبر دارالافتاء میں بنفس نفیس حاضر ہوکر طلاق کے الفاظ استعمال کرتے وقت طاری ہونے والی اپنے نفسیاتی مرض کی کیفیت ان کے سامنے واضح کردے ، اور وہ جو رائے دیں اس کے مطابق عمل کرے، لیکن اس کے باوجود سائل کا اسی سوال کو لے کر بار بار فتوی طلب کرنا دارالافتاء کے نظم و نسق کے خلاف ہے ، جب کہ اس کے علاوہ بھی سائل اپنے مذکورہ مسئلہ کا جواب لے چکا ہے ، سائل کو چاہئے کہ وہ اس سے اجتناب کرے ۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101941
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن