بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کیا ہے؟


سوال

طلاق کے متعلق تفصیل سے جواب دیں۔

جواب

طلاق میاں بیوی کے درمیان نکاح کے معاہدہ کو توڑنے کا نام ہے، اس کے ذریعے دونوں کا تعلق ختم ہوجاتا ہے۔

طلاق کا اختیار اللہ تعالیٰ نے مرد کو دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد میں عادتاً وطبعاً عورت کی بہ نسبت فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، نیز انسانی خلقت ، فطرت، قوت اور صلاحیت کے لحاظ سے اور عقل کے ذریعہ انسان غوروخوض کرے تو یہی نظر آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو قوت مرد کو عطا کی ہے، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے، وہ عورت کو نہیں دی گئی۔

اللہ تعالیٰ کے یہاں حلال چیزوں میں سب سے مبغوض ترین چیز طلاق ہے، ضرورتِ شدیدہ کے بغیر طلاق دینے سے اجتناب کرنا چاہیے، اور اگر میاں بیوی کے درمیان اختلافات اور جھگڑے اس قدر بڑھ جائیں کہ دونوں خاندانوں کے بڑوں کے سمجھانے کے باوجود معاملات ٹھیک ہوتے دکھائی نہ دیں اور دونوں کا نبھاہ مشکل نظر آئے، تب طلاق کا اقدام کیا جاسکتا ہے۔

عمومی طور پر طلاق کی تین قسمیں کی جاتی ہیں:۱:-طلاقِ رجعی        ۲:- طلاقِ بائن         ۳:-طلاقِ مغلظہ

                                                طلاقِ رجعی یہ ہے کہ واضح الفاظ کے ذریعہ بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی جائے، مثلاً: شوہر نے بیوی سے کہہ دیا کہ میں نے تجھے طلاق دی، یہ وہ طلاق ہے جس سے نکاح فوراً نہیں ٹوٹتا، بلکہ عدت پوری ہونے تک باقی رہتا ہے، عدت کے دوران مرد جب چاہے طلاق سے رجوع کرکے عورت کو پھر سے بغیر کسی نکاح کے بیوی بنا سکتا ہے اور  شرعاً اس رجعت کے لیے بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔

                                            طلاقِ بائن یہ ہےکہ ایسے الفاظ کے ذریعہ طلاق دینا جو صراحتاً طلاق کے معنی پر دلالت کرنے والے نہ ہوں، جیسے: کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’تو اپنے میکے چلی جا‘‘،  اس طرح کے الفاظ سے طلاق اسی وقت واقع ہوگی جبکہ شوہر نے ان الفاظ کے ذریعہ طلاق دینے کا ارادہ کیا ہو، ورنہ نہیں۔ ان الفاظ کے ذریعہ طلاق بائن پڑتی ہے، یعنی نکاح فوراً ختم ہوجاتا ہے، اب نکاح کرکے ہی دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے حلال ہوسکتے ہیں۔ 

                                       طلاقِ مغلظہ یہ ہے کہ اکٹھے طور پر یا متفرق طور پر تین طلاق دینا، خواہ ایک ہی مجلس میں ہوں یا ایک ہی پاکی میں دی گئی ہوں۔ ایسی صورت میں نہ تو مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے اور نہ ہی دونوں میاں بیوی نکاح کرسکتے ہیں، الاّ یہ کہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح کرے اور دونوں نے صحبت بھی کی ہو، پھر یا تو دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا دوسرا شوہر اپنی مرضی سے اسے طلاق دےدے تو پھر یہ عورت دوسرے شوہر کی طلاق یا موت کی عدت کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔

طلاق دینے کا سب  سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو اہم شرائط کے ساتھ صرف ایک طلاق دے دی جائے: 1۔عورت پاکی کی حالت میں ہو، 2۔شوہر عورت کی ایسی پاکی کی حالت میں طلاق دے رہا ہو کہ اس نے بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو۔ 
صرف ایک طلاق دینے پر عدت کے دوران رجعت بھی کی جاسکتی ہے، یعنی میاں بیوی والے تعلقات کسی نکاح کے بغیر دوبارہ بحال کیے جاسکتے ہیں۔ عدت گزرنے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح بھی ہوسکتا ہے۔ نیز عورت عدت کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔ غرضیکہ اس طرح طلاق واقع ہونے کے بعد بھی ازدواجی سلسلہ کو بحال کرنا ممکن ہے اور عورت عدت کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرنے کا مکمل اختیار بھی رکھتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں اور طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتو صرف ایک طلاق دے دی جائے، تاکہ غلطی کا احساس ہونے پر عدت کے دوران رجعت اور عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کا راستہ کھلا رہے۔ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بالکل بچنا چاہیے، کیونکہ اس کے بعد رجعت یا دوبارہ نکاح کرنے کا راستہ بظاہر بند ہوجاتا ہے۔

اگر سوال کا مقصد کچھ اور ہے تووضاحت کے ساتھ سوال لکھ کر بھیجیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں