بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے متعلق چند سوالات


سوال

میرے شوہر نے مجھے 3 نومبر 2024 کو زبانی طور پر پہلی طلاق دی اور پھر 6 نومبر 2024 کو بذریعہ ڈاک وہ پہلی طلاق تحریراً مجھے بھیج دی،اس سےکتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ وہ گھر نہیں آیا اور نہ ہی اس نے کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی رجوع کیا۔ پھر مجھے ان سے 13 نومبر 2024 کو ڈاک کے ذریعے تحریری طور پر دوسری طلاق  موصول ہوئی۔ ابھی تک وہ گھر نہیں آیا اور نہ ہی اس نے رابطہ کیا اور نہ ہی رجوع کیا۔ میری عمر 55 سال ہے اور اب مجھے حیض نہیں آتا۔ ہماری ایک بیٹی ہے جس کی عمر 15 سال ہے۔

اب میرے درج ذیل سوالات ہیں:

1۔ میری عدت کب شروع ہوئی اور کب ختم ہوگی؟

2۔اگر میرا شوہر صلح نہ کرے اور اگلے مہینے تیسری طلاق دے تو عدت کا کیا حکم ہے؟ کیا عدت تیسری طلاق سے شروع ہوتی ہے؟

3۔ میرے لیے عدت کے دوران کے کیا احکامات  ہیں؟ کیوں کہ میرے شوہر گھر نہیں آرہے اور نہ ہی کسی کام میں میری مدد کررہے ہیں۔ مجھے اپنی بیٹی کو سکول سے لینا چھوڑنا خود کرنا ہوتا ہے، گھریلو ضروری اشیاء خود خریدنی ہوتی ہیں، مجھے ہر باہر کا کام بھی کرنا پڑتا ہے۔

4۔ کیا میرا شوہر میری بیٹی کی ہر قسم کی ضرورت کے لیے دیکھ بھال/خرچ ادا کرنے کا پابند ہے؟ اور کس عمر تک؟

5۔اگر وہ میری بیٹی کے لیے رقم ادا کرنے کو تیار نہیں ہے تو میں کیا کروں؟

6۔ جس گھر میں میں اور میری بیٹی رہ رہے ہیں وہ میرے شوہر کے نام پر ہے۔ میں جانتی ہوں کہ عدت ختم ہونے کے بعد مجھے گھر خالی کرنا پڑے گا۔ لیکن کیا یہ جائز ہے کہ میرا شوہر یہ مکان ہماری بیٹی کو رہنے کے لیے دے اور طلاق کے بعد مجھے اس کے ساتھ اسی گھر میں رہنے دے؟

برائے مہربانی مجھے تفصیل سے جوابات فراہم کریں۔ 

جواب

2۔1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر   سائلہ کے شوہرنے 3 نومبر 2024ء کو  واضح الفاظ میں ایک طلاق دی ہو اور پھر 6 نومبر 2024ء کو ڈاک کے ذریعے پہلی طلاق ہی تحریراً اس طور پر لکھ کر بھیجی ہو  کہ اس میں  وضاحت کی  ہو کہ ”میں پہلی طلاق دیتا ہوں یا پہلی طلاق دے رہاہوں“ یا  ایسے الفاظ استعمال کیے ہوں جن سے یہ تاثر ملتا ہو کہ   شوہر پہلی طلاق ہی کی خبر تحریری طور پر دے رہا ہےتو  یہ زبانی طلاق  ہی کی خبر شمار ہو کر اس سے پہلی طلاق وقع ہوگی، پھر دوبارہ 13 نومبر 2024ء کو تحریراً دوسری  طلاق بھیجنے سے سائلہ پر دوسری طلاق واقع ہوگئی،اس صورت میں اگر شوہر 3 نومبر 2024ء سے 90 دن (جوکہ آئسہ ہونے کی وجہ سے اس کی عدت ہے)پورے ہونے سے پہلے پہلے رجوع نہ کرے تو 90دن پورے ہونے پرعدت ختم ہو جائے گی اور دو طلاقوں سے نکاح ٹوٹ جائے گا، اس صورت میں اگر دونوں دوبارہ نکاح کرکے گھر بسانا چاہیں تو نئے مہر کےساتھ دوبارہ نکاح کرکے گھر بسانے کی گنجائش ہے، اس صورت میں شوہر آئندہ کے لیے ایک طلاق کا مالک رہےگا، اور اگر سائلہ دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

اور اگر  6 نومبر 2024ءکی تحریری طلاق میں  پہلی  طلاق کی وضاحت نہ کی ہو بلکہ ”طلاق دیتاہوں یا طلاق دے رہاہوں“ یا ایسے الفاظ استعمال کیے ہوں جن  سے یہ تاثر ملتا ہو کہ شوہر ان الفاظ سے ابھی طلاق دے رہا ہے تو زبانی طلاق کے بعد پہلی تحریر سے دوسری طلاقِ رجعی واقع ہوگئی، پھر دوبارہ 13 نومبر 2024ء کو تحریری طلاق سے سائلہ پر تیسری طلاق واقع ہوکر سائلہ  اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، دوبارہ آپس میں نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔

3۔دو رجعی طلاقوں کی صورت میں عدت کے دوران سائلہ کے لیے زیب و زینت اختیار کرنا، بناؤسنگھار کرنا نئے کپڑے وغیرہ پہننا جائز ہے، لیکن دوسری جگہ نکاح کرنا یا نکاح  کا پیغام دینا اور گھر سے باہر نکلنا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ اگر سائلہ کو جانی یا مالی نقصان (بیماری، فقروفاقہ، گھر گِرنے یا مال ضائع ہونے) کا اندیشہ  ہوتو  گھر سے نکلنے کی اجازت ہوگی۔

تین طلاق ہونے کی صورت میں  عدت کے دوران مطلقہ کے لیے   زیب وزینت اختیار کرنا، بناؤسنگھار  کرنا، خوشبو لگانا، اور  نئے کپڑے وغیرہ پہننا یا دوسری جگہ نکاح کرنا یا نکاح کا پیغام دینا اورشدید ضرورت کے بغیر گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے، البتہ جانی یا مالی نقصان کا اندیشہ ہو تو گھر سے نکلنے کی اجازت ہوگی۔

5۔4۔ سائلہ کی عدت ختم ہونے تک  کا نان نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہے،اور  بیٹی کی شادی تک کا  نان نفقہ  بھی والد (سائلہ کے شوہر) کے ذمہ لازم ہے، اور اگر  والد بیٹی کا نان نفقہ نہ ادا کرے تو عدالت کے ذریعہ  لے سکتے ہیں۔

6۔اگر عدت کے بعد سائلہ کا شوہرمذکورہ مکان میں اپنی بیٹی کے ساتھ  سائلہ کو رہنے کی اجازت دے تو سائلہ کے لیےبیٹی کے ساتھ  مذکورہ مکان میں رہنا جائز ہے، تاہم یاد رہے کہ عدت ختم ہونے  کے بعد  سائلہ کا شوہر سائلہ  کے لیے اجنبی ہوگا،  اس لیے سائلہ کا شوہر مذکورہ مکان میں ساتھ نہ رہ رہا ہو یا اسی مکان میں تو رہے لیکن   مکان اتنا بڑاہو کہ دونوں  پردہ کا خیال کرتے ہوئے  اجنبیوں کی طرح الگ الگ اس طرح رہ  سکتے ہوں کہ دونوں کے کمرے الگ ہوں، اور ان کا آمنا سامنا نہ ہو، اور گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مذکورہ طریقہ سے سائلہ اپنی  بیٹی کے ساتھ رہ سکتی  ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"وفي التتارخانية: كتب في قرطاس: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق ثم نسخه في آخر أو أمر غيره بنسخه ولم يمله عليه فأتاها الكتابان طلقت ثنتين قضاء إن أقر أنهما كتاباه أو برهنت".

(كتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة، ج : 3، ص : 246، ط : سعيد)

وفیه ایضا :

"(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق، وإذا قال: أنت طالق ثم قيل له ما قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت هي طالق فهي طالق واحدة لأنه جواب، كذا في كافي الحاكم."

 

(کتاب الطلاق ، ‌‌باب طلاق غير المدخول بها ، ج : 3 ، ص : 293 ، ط : سعید)

وفيه ايضا :

"وفي المجتبى الأفضل الحيلولة بستر، ولو فاسقا فبامرأة. قال:ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.

وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.۔۔۔۔(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك والظاهر أن التقييد بكون سنهما ستين سنة وبوجود الأولاد مبني على كونه كان كذلك في حادثة السؤال كما أفاده ط.

(كتاب الطلاق، باب العدة، ‌‌فصل في الحداد، ج : 3، ص : 538، ط :  سعيد)

تاتارخانیہ میں ہے :

"٦٥٢٤: وفي الواقعات : إذا طلق امرأته ثم قال لها " قد طلقتك " أو قال بالفارسية " طلاق دادم ترا ، دادم ترا طلاق " تقع تطليقة ثانية ، وفي الصغرى : وفي قوله " داد مت طلاق ، أو : ترا طلاق ، يصح نية الثلاث ، م : ولو قال " قد كنت طلقتك " أو قال بالفارسية " طلاق داده أم ترا ، لا يقع شيء بالكلام الثاني".

(كتاب الطلاق، الباب، الفصل الرابع، ج : 12، ص : 401، ط : زكريا)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ثم إذا وقع عليها ثلاث تطليقات في ثلاثة أطهار فقد مضى من عدتها حيضتان إن كانت حرة لأن العدة بالحيض عندنا، وبقيت حيضة واحدة فإذا حاضت حيضة أخرى فقد انقضت عدتها ۔۔۔۔وإن كانت من ‌ذوات ‌الأشهر ‌طلقها ‌واحدة ‌رجعية وإذا مضى شهر طلقها أخرى، ثم إذا مضى شهر طلقها أخرى ثم إذا كانت حرة فوقع عليها ثلاث تطليقات ومضى من عدتها شهران وبقي شهر واحد من عدتها فإذا مضى شهر آخر فقد انقضت عدتها".

(كتاب الطلاق، ج : 4، ص : 90۔189، ط : دار الكتب العلمية)

وفيه ايضا :

"وبخلاف مسألة الطلاق أن قوله أنت طالق ‌إنشاء ‌الطلاق لغة وشرعا، والإنشاء لا يحتمل الغلط حتى لو كان إخبارا بأن قال لها: كنت طلقتك أمس واحدة لا بل اثنتين لا يقع عليها إلا طلاقان، والله تعالى أعلم".

(كتاب الإقرار، ج : 10، ص : 190، ط : دارلكتب العلمية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية".

(كتاب الطلاق، ‌‌الباب الثالث عشر في العدة، ج : 1، ص : 552، ط : دار الكتب العلمية)

وفيها ايضا :

"على المبتوتة والمتوفى عنها زوجها إذا كانت بالغة مسلمة الحداد في عدتها كذا في الكافي. والحداد الاجتناب عن الطيب والدهن والكحل والحناء والخضاب ولبس المطيب والمعصفر والثوب الأحمر وما صبغ بزعفران إلا إن كان غسيلا لا ينفض ولبس القصب والخز والحرير ولبس الحلي والتزين والامتشاط كذا في التتارخانية۔۔۔ولا يجب الحداد على الصغيرة والمجنونة الكبيرة والكتابية والمعتدة من نكاح فاسد والمطلقة طلاقا رجعيا وهذا عندنا كذا في البدائع.۔۔۔۔إن كانت معتدة من نكاح صحيح وهي حرة مطلقة بالغة عاقلة مسلمة، والحالة حالة الاختيار فإنها لا تخرج ليلا ولا نهارا سواء كان الطلاق ثلاثا أو بائنا أو رجعيا كذا في البدائع۔۔۔إن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على مالها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل".

(كتاب الطلاق، ‌‌الباب الرابع عشر في الحداد،59۔ 558، ط : دار الكتب العلمية)

وفيها ايضا :

"إذا كان الأب يجد نفقة الولد يمتنع من الإنفاق يفرض القاضي عليه النفقة۔۔۔۔ويحبس الأب بنفقة الولد وإن كان لا يحبس بسائر ديونه۔۔۔ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة".

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الرابع، ج : 1، ص : 84۔583، ط : دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں