بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1446ھ 09 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے معاملہ میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی صورت میں حکم مقرر کیا جائے گا/ عدالت کی یک طرفہ خلع معتبر نہیں


سوال

میری بہن  کو ان کے شوہر نے تین دفعہ ان الفاظ کے ساتھ طلاق دی ہے:میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، لیکن میرے بہنوئی اس بات سے منکر ہورہے ہیں، شریعت اس بارے میں کیا ہتی ہے؟ کیا طلاق واقع ہوچکی ہے؟

جب میرے بہنوئی نے طلاق سے انکار کیا تو میری بہن نے کورٹ میں خلع کا کیس دائر کیا اور کورٹ  میں میرا بہنوئی حاضر نہیں ہوا ، کورٹ نے خلع کا فیصلہ کردیا، کیا یہ خلع واقع ہوئی ہے یا نہیں؟

میرے بہنوئی نے حقِ مہر بھی ادا نہیں کیا ہے، ہم حقِ مہر وصول کرنا چاہتے ہیں، کیا ہمیں یہ حق حاصل ہے؟

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں واقعۃً اگر سائل کی بہن اور اس کے شوہر کے درمیان طلاق کے معاملے میں اختلاف پایا جاتاہے کہ سائل کی بہن شوہر کے طلاق دینے کا دعوی کرتی ہے اور اس کاشوہر اس کا انکار کرتا ہے تو ایسی صورت میں شرعی فیصلہ یہ ہے کہ اگر سائل کی بہن بھی سائل کے بیان سے متفق ہو اور شوہرکےتین طلاق دینے  کا دعوی کرے  تو اس اختلافی صورتِ حال میں کوئی حتمی فتوی دینا ممکن نہیں ہے، اس تنازع کا حل یہی ہے کہ میاں بیوی کسی ماہر مفتی صاحب کو اپنے درمیان فیصل مقرر کرکے اس کے سامنے اپنا تنازعہ رکھیں اور اپنا اپنا موقف پیش کریں، فیصلہ کرنے والے مفتی صاحب فریقین کے موقف اور گواہیوں کا جائزہ لینے کے بعد جو فیصلہ دیں، اس پر عمل کریں۔اور جب تک اس کا شرعی فیصلہ نہ ہو دونوں ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تفسيره تصيير غيره حاكما فيكون الحكم فيما بين الخصمين كالقاضي في حق كافة الناس وفي حق غيرهما بمنزلة المصلح، كذا في محيط السرخسي يجب أن يعلم بأن التحكيم جائز وشرط جوازه أن يكون الحكم من أهل الشهادة وقت التحكيم ووقت الحكم أيضا حتى أنه إذا لم يكن أهلا للشهادة وقت التحكيم وصار أهلا للشهادة وقت الحكم بأن كان الحكم عبدا فأعتق أو ذميا فأسلم وحكم لا ينفذ حكمه، وحكم هذا الحكم يفارق حكم القاضي المولى من حيث إن حكم هذا الحكم إنما ينفذ في حق الخصمين ومن رضي بحكمه، ولا يتعدى إلى من لم يرض بحكمه بخلاف القاضي المولى، كذا في الملتقط."

(كتاب أدب القاضي، الباب الرابع والعشرون، ج:3، ص:397، ط: دار إحياء التراث)

2: سائل کی بہن نے کورٹ میں جو خلع کا مقدمہ دائر کیا اور کورٹ نے یک طرفہ خلع کا فیصلہ کردیاتھا،جب کہ شوہر نہ عدالت میں حاضر ہوا اور نہ ہی عدالت کے یک طرفہ فیصلہ کردینے کے بعداسے زبانی یا تحریری طور پر قبول کیا تو ایسا یک طرفہ خلع شرعًا معتبر نہیں،  اس سے خلع واقع نہیں ہوا، کیوں کہ شرعی طور پر خلع میں طرفین یعنی میاں بیوی کی رضا مندی ضروری ہے، اگر ان میں سے ایک بھی راضی نہ ہو تو خلع واقع نہیں ہوتا۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال): ‌والخلع ‌جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:6، ص:173، ط: دار المعرفة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌وأما ‌ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق، ج:3، ص: 145، ط: دار الكتب العلمية)

3: سائل کے بہنوئی نے اگر واقعۃً اپنی بیوی کو مہر ادا نہیں کیا اور نہ ہی سائل کی بہن نے وہ مہر معاف کیا ہے تو سائل کے بہنوئی پر اس مہر کا ادا کرنا لازم ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وروي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «‌من ‌كشف ‌خمار امرأته ونظر إليها وجب الصداق دخل بها أو لم يدخل» وهذا نص في الباب.

وروي عن زرارة بن أبي أوفى أنه قال: قضى الخلفاء الراشدون المهديون أنه إذا أرخى الستور وأغلق الباب فلها الصداق كاملا وعليها العدة دخل بها أو لم يدخل بها، وحكى الطحاوي في هذه المسألة إجماع الصحابة من الخلفاء الراشدين وغيرهم؛ ولأن المهر قد وجب بنفس العقد إما في نكاح فيه تسمية فلا شك فيه، وإما في نكاح لا تسمية فيه فلما ذكرنا في مسألة المفوضة إلا أن الوجوب بنفس العقد ثبت موسعا ويتضيق عند المطالبة، والدين المضيق واجب القضا."

(كتاب النكاح، فصل بيان مايتأكد به المهر، ج:2، ص:292، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512101519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں