بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے مسئلہ میں زوجین کے اختلاف کا حل


سوال

 مفتی صاحبان ! شوہر کا بیان میری شادی کو ١٠ سال ہو گئے ہیں میں جو کہہ رہا ہوں اللہ  کو حاضر ناظر جان کے کہہ رہا ہوں کہمیری اپنی بیوی سے لڑائی ہوئی جس پے غصے میں آکے میں نے اپنی بیوی کو بغیر کسی نیت کے ٢ بار کہا کے میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ،اس کے اگلے دن میری بیوی اپنے بھائی کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی اور وہاں جانے کے بعد وہ مجھ پے جھوٹے الزام لگاتی ہے کے نکاح کے بعد میں نے اسے ٢ بار طلاق دی اسکے بعد ٢ سال پہلے میں نے اسے ١ طلاق دی اسکے بعد ٦ مہینے  پہلے میں نے اسے ایک اور طلاق دی،  ایسے کل ملے کے ٤ بار  طلاق دی ہے۔ جب میں نے اسے ٤ بار طلاق دے دی تھی تو اسے اس وقت کیوں خیال نہ آیا ؟ اور اسکے بعد بھی وہ میرے ساتھ اتنے سالوں تک کیوں رہتی رہی؟  اور نہ میری بیوی کے پاس ان ٤ طلاقوں کے گواہ ہیں جو بقول میری بیوی کے میں نے اسے دیں اور اسے اب ٦ بار اس کے بعد بقول اس کے خیال آرہا ہے کے میں نے  اسے ٣ سے زائد بار طلاق دی ہے . براے مہربانی مجھے اسکا کوئی حل بتائیں. بقول میری بیوی کے وہ عدت کر رہی ہے لیکن یہ کیسی عدت  ہے جس میں وہ کبھی ایک بھائی کے گھر تو کبھی دوسرے بھائی کے گھر تو کبھی بھن کے گھر رہ رہی ہے، اور دوسرا اکیلی رکشہ، ٹیکسی میں دنیا بھر میں گھوم رہی ہے اور سب کو بولتی پھر رہی ہے کے میں عدّت کر رہی ہوں، ایسے کیسے  کسی نے فتویٰ جاری کر دیا اور میری بیوی ایسے کیسے عدّت کر سکتی ہے؟  وہ بھی مختلف لوگوں کے گھر جاکے یہ سرا سر نہ انصافی ہے میرے ساتھ. براے مہربانی مجھے جلد سے جلد اس مسئلہ ے کا حل  بتائیں یا فتویٰ جاری کریں تاکہ میں اپنی بیوی کو یہ فتویٰ دکھا کے واپس لا سکوں کہ  ہماری کوئی ٣ طلاقیں نہیں ہوئیں اور ہمارے پاس ابھی بھی رجو ع کا حق باقی ہے. بیوی کا بیان میرے شوہر نے نکاح کے بعد مجھے ٢ بار طلاق دی اس کے بعد ٢ سال پہلے مجھے ١ طلاق دی اسکے بعد ٦ مہینے پہلے ایک اور طلاق دی اور ابھی ١ مہینے پہلے ٢ بار طلاق اس طرح  کل ملا کے ٦ بار طلاق ہو گئی ۔ وہ کہتی ہے کہ ہم   نے ١ مفتی  صاحب سے معلوم کیا ہے کہطلاق ہو گئی  ہے ہماری،  اب میں عدّت کر رہی ہوں. براے مہربانی مجھے بتائیں کے طلاق واقع ہوئی ہے کہ نہیں .

جواب

صورت مسولہ میں سائل اور اس کی اھلیہ کے بیان میں اختلاف پایا جاتا ھے، اس لئیے میاں بیوی دونوں کسی دارالافتاء میں پیش ھو کر اپنے معاملہ کا تصفیہ کروایئں۔


فتوی نمبر : 143408200002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں