بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بارے میں صرف سوچنے اور نیت کرنے سے طلاق نہیں ہوتی


سوال

 ایک شخص عام دنوں میں ٹھیک رہتا ہے،البتہ کچھ دن ایسے آجاتے ہیں کہ جب وہ ہر ہر بات میں طلاق کا سوچتا ہے، ان دنوں اٹھتے بیٹھتے اسے طلاق کی سوچیں آتی ہیں، البتہ اس شخص نے کبھی طلاق کے صریح یا کنائی الفاظ زبان سے ادا نہیں کیے اورنہ ہی لکھے ہیں۔ انہی دنوں میں اس کے ساتھ مندرجہ ذیل واقعات پیش آئےہیں ،برائے مہربانی ان کاشرعی حکم بتا دیں۔

1۔وہ شخص پانی پی رہا تھا اور اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ اگر میں نے اگلا گھونٹ لیا تو میری بیوی کو طلاق یا میری بیوی مجھ پر طلاق، اسی سوچ میں اس نے اگلا گھونٹ پی لیا۔ کیا اس سے طلاق واقع ہو گئی ؟ اگر اگلے گھونٹ کے ساتھ اس نے طلاق کی نیت بھی کر لی تو کیاطلاق ہو گئی؟ جب کہ منہ سے کچھ نہیں بولا۔

2۔اسی طرح وہ شخص چل رہا تھا کہ اچانک اس نے سوچا کہ اگلا قدم لیا تو بیوی کو طلاق، اسی سوچ میں گم اگلا قدم لیتا ہے۔ کیا اس سے طلاق واقع ہو گئی ؟ اگر اگلے قدم کے ساتھ اس نے طلاق کی نیت بھی کر لی تو کیا طلاق ہو گئی؟ جب کہ منہ سے کچھ نہیں بولا ۔

3۔وہ شخص اپنے دوست سے بات کر رہا تھا کہ فہد تم بہت اچھے انسان ہو، اچانک اس کو یہ سوچ آجاتی ہے کہ اگر دوبارہ ایسا بولا توبیوی کو طلاق، اسی سوچ میں وہ یہ الفاظ دوبارہ بول دیتا ہے۔ کیا اس سے طلاق واقع ہو گئی ؟ اگر دوبارہ بولنے کے ساتھ اس نے طلاق کی نیت بھی کر لی کیا طلاق ہو گئی؟ جب کہ منہ سے بولا "فہد تم بہت اچھے انسان ہو"۔

4۔اسی طرح وہ شخص کلمے کا ورد کر رہا تھا اور یہی سوچ ذہن میں آجاتی ہے کہ اگر دوبارہ کلمہ پڑھا تو بیوی کو طلاق، اسی سوچ میں گم اس کے منہ سے کلمہ (کلمہ طیبہ)نکل جاتاہے۔ کیا اس سے طلاق واقع ہو گئی ؟ اگر کلمے کے ساتھ اس نے طلاق کی نیت بھی کر لی تو کیا طلاق ہو گئی ؟

اسی طرح کسی بھی چیز کو دیکھ کروہ شخص یہ سوچ لیتا ہے کہ اگر یہ کام دوبارہ ہوا تو میری بیوی کو طلاق،مثلاً اگر چلتی گاڑی کا ٹائر آگے گیا یا کسی شخص نے ہاتھ دوبارہ ہلایا۔ کیا اس سے طلاق واقع ہو گئی ؟ اگر اگلا بندہ ہاتھ ہلا لے یا اسکے ساتھ اس نے طلاق کی نیت بھی کر لی کیا طلاق ہو گئی؟ جب کہ منہ سے کچھ نہیں بولا۔

آج اسی شخص نے اپنی بیوی کو میسج میں ایک کارٹون بھیجا جو پستول سے گولیاں چلا رہا تھا، میسج بھیجنے کے بعداس کو ذہن میں خیال آیا کہ کارٹون کی ہر گولی کے ساتھ بیوی کو طلاق کے الفاظ،یہ خیال میسج بھیجنے کے بعد آیا، کیا اس خیال سے کچھ ہوا؟ اگر اس خیال کے ساتھ نیت بھی شامل ہوتی تو کیا طلاق ہو جاتی؟ جب کہ میسج میں ایک کارٹون بھیجا جو پستول سے گولیاں چلا رہا تھا۔ نہ تو طلاق کے صریح الفاظ نہ ہی کنائی الفاظ، البتہ یہ سب دل میں سوچا۔

اب اس شخص کو کیا کرنا چاہیے؟ اسے نہیں یاد کہ کب اس نے سوچ کے ساتھ طلاق کی نیت بھی کی ہے اور کب صرف سوچا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے طلاق کے کوئی الفاظ ادا نہیں کیے ہیں تو اس شخص کےصرف طلاق کے بارے میں سوچنے سےاوراسی طرح بغیر الفاظ کے صرف طلاق کی نیت کرنے سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،کیوں کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا لفظ ادا کیا جائے جوصراحۃً یا کنایۃًطلاق کے معنی پر  دلالت کرتا ہو۔

نیزمذکورہ شخص کےمتعلق سوال سے معلوم ہوتا ہےکہ اسے وساوس کا مرض لاحق ہے،لہذا اسے اپنے علاج کی طرف توجہ دینی چاہیے۔وساوس کے مریض کے لیے پہلا کام تو یہ ہے کہ جس بارے میں وسوسہ لاحق ہو،اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھے اور خود کو کسی کام میں مصروف کرے،خاص کرکے وساوس سے بچنے کی جو دعائیں ہیں یعنی" أعوذ بالله من الشيطن الرجيم"،سورۃ الناس،سورۃ الفلق یا پھر پانچویں کلمہ کا ورد کرتا رہے،تاوقتیکہ وساوس ختم ہوجائیں۔

ردالمحتار میں ہے:

"(قوله: و ركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر...وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظًا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه، كما أفتى به الخير الرملي وغيره."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:230، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں